واقعہ جگر خواری : حقائق اور تجزیہ (دوسری قسط – سلسلہِ تائیدات)

واقعہ جگر خواری: حماد بن سلمہ کا عطا بن سائب سے سماع (دوسری قسط)

تمہید

واقعہ جگر خواری کی پہلی قسط میں ہم نے انتہائی تحقیقی انداز میں یہ واضح کر دیا کہ:

حماد بن سلمہ کے عطا بن سائب سے سماع کے بارے میں درست قول یہی ہے کہ حماد کا عطا سے سماع عطا کے اختلاط وتغیر سے پہلے کا ہے۔ یہی امرِ محقق ہے۔ اسی پہ جمہور اہلِ علم کا اتفاق ہے اور یہی لائقِ اعتماد ہے۔

اس سلسلے میں ہم امام یحیی بن معین ، امام ابو داود ، یعقوب بن سفیان فسوی ، امام ابن الجارود ، امام ابو جعفر طحاوی حنفی ، امام ابنِ حبان ، امام حمزہ کنانی ، دار قطنی ، حافظ ذہبی ، حافظ مغلطای ، ابنِ رجب حنبلی ، ابنِ ملقن ، ابن الہمام جیسی شخصیات کی تصریحات پیش کیں اور حافظ ابنِ حجر کا حقیقی موقف بھی واضح کیا اور ان کی متعدد تصریحات سے ثابت کیا کہ حافظ ابنِ حجر کا وہ موقف جس پہ آپ کی رائے مستقر ہوئی وہ یہی تھا کہ:

حماد کا عطا سے سماع عطا کے اختلاط وتغیر سے پہلے کا ہے۔

اس توضیح وتحقیق کے بعد اہلِ انصاف کے لیے مزید کسی کلام کی حاجت نہیں۔ لیکن شومئیِ قسمت کہ ہمارا واسطہ ایک ایسے طبقہ کے ساتھ پڑا ہے جو ایک جانب تو علم سے نا آشنا لوگ ہیں اور دوسری جانب اپنے علاوہ کسی کو عالم سمجھتے ہی نہیں۔ رہی بات دھوکا دہی اور غلط بیانی کی تو وہ ان کے اضافی اوصاف ہیں۔ لہذا اس طبقہ کے شر اور دغا بازی کے شجرہ ملعونہ کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ہم نے مزید کچھ اہلِ علم کی تصریحات اور افادات کو ذکر کرنا مناسب سمجھا تاکہ اربابِ دین وعقل کو اندازہ ہو کہ:

اربابِ دعوتِ اسلامی حبِّ بنو امیہ میں کس حد تک گر چکے ہیں اور کفر وشرک کی حالت میں بھی ان کے دفاع کی خاطر کس گہری کھائی میں گرنے کو اپنے لیے اعزاز سمجھ رہے ہیں۔

تنبیہ: واضح رہے کہ اس قسط کا محور بھی حماد کے عطا سے سماع کی صحت ہے۔ اس سلسلے پہ مزید گفتگو اگلی قسطوں میں مذکور ہو گی۔ ان شاء اللہ سبحانہ وتعالی

امام ابنِ جریر طبری کاموقف

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ۳۱۰ھ کی شخصیت اہلِ علم کے ہاں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ نے تہذیب الآثار میں حماد کی سلمہ سے ایک روایت کو ذکر کرتے ہوئے کہا:

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ الْقَزَّازُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْهَالِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: «مَنْ تَرَكَ مَوْضِعَ شَعْرَةٍ مِنْ جَسَدِهِ مِنْ جَنَابَةٍ لَمْ يَغْسِلْهُ، فُعِلَ بِهِ كَذَا وَكَذَا مِنَ النَّارِ» ، قَالَ عَلِيٌّ: ” فَمِنْ ثَمَّ عَادَيْتُ شَعْرِي ، وَكَانَ يَجُزُّ شَعْرَهُ

اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد امام ابنِ جریر طبری نے کہا:

وَهَذَا خَبَرٌ عِنْدَنَا صَحِيحٌ سَنَدُهُ[1]

اس خبر کی سند ہمارے نزدیک صحیح ہے۔

امام ابنِ جریر طبری کی گفتگو کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔ آپ نے حماد کی عطا سے روایت ذکر کرنے کے بعد واشگاف الفاظ میں کہا:

ہمارے نزدیک اس کی سند صحیح ہے۔

اس دو ٹوک جملے نے واضح کر دیا کہ امام ابنِ جریر طبری حماد کے عطا سے بعد از اختلاط ایسے سماع کے قائل نہیں جو اس سند کی صحت پر اثر انداز ہو۔ اور ہم پہلی قسط میں واضح کر چکے کہ یہی وہ موقف ہے جو جمہور اہلِ علم وتحقیق کا ہے اور یہی درست اور لائقِ اعتماد ہے۔

امام حاکم

عظیم محدث امام محمد بن عبد اللہ بن حمدویہ حاکم نیشاپوری متوفی ۴۰۵ھ کی نگاہ میں بھی حماد بن سلمہ کا عطا بن سائب سے سماع درست اور صحیح تھا۔ مستدرک علی الصحیحین میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ایک حدیث جس میں رسول اللہ ﷺ کی اسراء کا تذکرہ اور بنتِ فرعون کی ماشطہ کا تذکرہ ہے۔ اس کی سند کو بدیں الفاظ ذکر کیا:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ هَانِئٍ، ثنا الْحُسَيْنُ بْنُ الْفَضْلِ الْبَجَلِيُّ، ثنا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَنْبَأَ عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رضي الله عنهما، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: ” لَمَّا أُسْرِيَ بِي مَرَّتْ بِي ‌رَائِحَةٌ ‌طَيْبَةٌ الحدیث

اس حدیث کا ذکر کرنے کے بعد دو ٹوک الفاظ میں کہا:

هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ[2]

یعنی یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور بخاری ومسلم نے اسے روایت نہ  کیا۔

حافظ شمس الدین ذہبی

امام حاکم کو تصحیح میں متساہل ٹھہرایا جاتا ہے لہذا ممکن ہے کے دعوتیے – جن بے چاروں کو صحت وضعف کی سرے سے خبر ہی نہیں – امام حاکم کی تصحیح پر محقق بننے کے شوق میں کچھ نا کچھ جڑ دیں۔ لہذا ان کی اطلاع کے لیے گزارش ہے کہ :

  • امام حاکم کی اس تصحیح کو حافظ شمس الدین ذہبی متوفی ۷۴۸ھ نے بھی تسلیم کیا اور اس حدیث کے تحت تلخیص میں کہا:

صحيح[3]

  • اور محض تلخیص ہی میں نہیں ، بلکہ تاریخ الإسلام میں بھی اس روایت کو ذکر کیا۔ لکھتے ہیں:

أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ أَحْمَدُ بْنُ هِبَةِ اللَّهِ، أنا رَوْحٍ عَبْدُ الْمُعِزِّ بْنُ مُحَمَّدٍ كِتَابَةً، أَنَّ تَمِيمَ بْنَ أَبِي سَعِيدٍ الْجُرْجَانِيَّ أَخْبَرَهُمْ، أَنْبَأَ أَبُو سَعْدٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أنا أَبُو عَمْرُو بْنُ حِمْدَانَ، أنا أَحْمَدُ بْنُ عليّ بن المثنّى، حدثنا هدبة بن خالد، حدثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: “مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي بِرَائِحَةٍ طَيِّبَةٍ الحدیث

پھر دو ٹوک الفاظ میں کہا:

هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ[4]

یعنی یہ حدیث حسن ہے۔

  • اور العلو للعلی الغفار میں کہا:

هَذَا حَدِيث حسن الْإِسْنَاد[5]

یہ حدیث حسن الاسناد ہے۔

حافظ شمس الدین ذہبی کی امام حاکم سے موافقت اور دیگر تصریحات سے حافظ ذہبی کا حماد عن عطا کی بابت موقف بھی کھل کر واضح ہو جاتا ہے۔ اور ہم اس سلسلے کی پہلی قسط میں بھی حافظ ذہبی کی تصریح بتا چکے کہ آپ کی نظر میں حماد کا عطا سے سماع عطا کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بنو امیہ کے حامیوں کو بنو امیہ کے جھوٹے دفاع کے لیے رائی کا دانہ بھی مل جائے تو اس کو پہاڑ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

دفاعِ بنو امیہ کے بارے میں ہمارا موقف بھی یہی ہے کہ شرفِ صحابیت تو بڑی چیز ہے ، امویوں میں سے جو حضرات صرف اہلِ ایمان ہی ہوں ، ان کے دورِ اسلام وایمان کے بارے میں ان کا ہر جائز دفاع کیا جائے۔ لیکن دورِ کفر وشرک کے کرتوتوں کا دفاع کرنا اور اس دفاع کی خاطر امت میں فتنہ کھڑا کرنا اور ایک ثابت شدہ امر کو جھٹلانا ، یہ دین پرستی تو نہیں البتہ امویت پرستی ضرور کہلا سکتی ہے۔

امام قدوری

علامہ ابو الحسین احمد بن محمد بن جعفر بغدادی قدوری متوفی ۴۲۸ھ کا شمار حنفیوں کے ہاں چوٹی کے فقہاء وائمہ میں ہوتا ہے۔ آپ کی نگاہ میں حماد عن عطا روایت کی حیثیت کا اندازہ کرنے کے لیے آپ کی کتاب التجرید کا مطالعہ انتہائی مفید ہو گا۔ ہم یہاں ایک سے دو مثالوں کے تذکرہ پر اکتفا کریں گے۔

  • نمازِ کسوف کے تذکرہ میں لکھتے ہیں:

لنا: ما روى ‌حماد ‌بن ‌سلمة عن ‌عطاء بن السائب، [عن أبيه]، عن عبد الله بن عمرو، قال: كسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم[فقام بالناس فلم يكد يركع ثم يركع، فلم يكد يرفع ثم يرفع، وفعل في الثانية مثل ذلك).[6]

ہماری دلیل وہ حدیث ہے جو حماد بن سلمہ نے عطا بن سائب سے روایت کی ، وہ اپنے والد اور وہ عبد اللہ بن عمرو سے راوی ، کہا: رسول اللہ ﷺ کے دورِ اقدس میں سورج گرہن لگا تو آپ ﷺ لوگوں کے ساتھ (نماز کے لیے) قیام فرما ہوئے۔ ایسے لگا جیسے رکوع ہی نہ کریں گے۔ پھر (بہت دیر بعد) رکوع فرمایا تو ایسے لگا جیسے (رکوع سے) اٹھیں گے ہی نہیں۔ پھر اٹھے اور دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی فرمایا۔

امام قدوری کی اپنی کلام آپ کے سامنے ہے۔ آپ اس حدیث کو نہ صرف ذکر کر رہے ہیں بلکہ اسے ایک مسئلہ خلافیہ کے اندر اپنے موقف کی دلیل کے طور پر بیان کر رہے ہیں۔ بات واضح ہے کہ اگر آپ کی نگاہ میں حماد کا عطا سے سماع بعد از اختلاط اور ناقابلِ اعتبار ہوتا تو اس سند سے مروی حدیث سے استدلال چہ معنی دارد؟ اور پھر وہ بھی مسئلہ خلافیہ میں۔ کیا امام قدوری کو اندازہ نہ تھا کہ ان کا مقابل ان پہ حماد عن عطا کے سماع کا مسئلہ چھیڑ کر ان کے استدلال کے ضعف کو آشکار کر دے گا؟

تنبیہ

اس حدیث کو حنفی موقف کی دلیل کے طور پر لانے والے امام قدوری تنہا نہیں بلکہ دیگر ائمہ وفقہاء نے بھی اس حدیث کو اپنی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے لہذا اسے فقط امام قدوری کا موقف نہ سمجھا جائے بلکہ حنفیوں کا موقف شمار کیا جائے۔ مزید اطمینانِ قلبی کے لیے التنبیہ علی مشکلات الہدایہ [7]، البنایہ شرح ہدایہ [8]، فتح القدیر [9]، فتح باب العنایہ [10]، مراقی الفلاح [11]اور دیگر اسفارِ احناف سے اس مقام کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

  • امام قدوری ایک دوسرے مقام پہ اپنے موقف کی دلیل پیش کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

لنا: ما روى ‌حماد ‌بن ‌سلمة عن ‌عطاء بن السائب [عن أبيه] عن عبد لله بن عمرو أن قومًا من اليهود قالوا للنبي صلى الله عليه وسلم: السام عليك. فقال صلى الله عليه وسلم: (السام واللعنة عليكم). ولم ينقض عهدهم بذلك.[12]

ہماری دلیل وہ حدیث ہے جسے حماد بن سلمہ نے عطا بن سائب سے روایت کیا ، وہ اپنے والد ، وہ عبد اللہ بن عمرو سے راوی کہ یہودیوں کی ایک قوم نے نبی ﷺ سے کہا: آپ پر موت ہو۔ (معاذ اللہ) تو نبی ﷺ نے فرمایا: تم پر موت اور لعنت ہو۔ (لیکن اس کے باوجود) نبی ﷺ نے ان کے عہد کے نقض کا حکم صادر نہ فرمایا۔

جیسے حدیث مذکورہ بالا کو ذکر کرنے میں امام قدوری متفرد نہیں یونہی اس حدیث سے اپنے موقف پر استدلال میں بھی امام قدوری تنہا نہیں۔ نیز حماد عن عطا کی مرویات سے حنفی صرف انہی دو مسئلوں میں اپنے موقف پر د لیل نہیں لاتے بلکہ ان دو مسئلوں کے علاوہ بھی کئی مسائل میں حماد عن عطا کی مرویات کو معرضِ استدلال میں پیش کیا جاتا ہے۔

دعوتیوں کو دفاعِ بنو امیہ کی نئی دھن لگی ہے اور اس تازہ دھن میں ایک جانب پوری امت کے ہاتھوں اموی حضرات کی جو در گت بنوا رہے ہیں وہ ان حضرات کی حماقت کی سند کے لیے کافی ہے۔ اور دوسری جانب اس شوقِ تازہ میں انہیں نئی فقہ بھی ترتیب دینا پڑے گی اور فقہ وحدیث کے نئے ائمہ بھی لانچ کرنا پڑیں گے۔

ضیاء الدین مقدسی

علامہ ضیاء الدین مقدسی متوفی ۶۴۳ھ نے المختارۃ کے اندر احادیثِ صحیحہ وارد کرنے کا التزام کیا۔  پھر اسی مختارہ کے اندر کہتے ہیں:

قَالَ الطَّبَرَانِيُّ: وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النَّضِرِ الْأَزْدِيُّ، ثَنَا أَبُو نَصْرٍ التَّمَّارُ قَالُوا: أَبْنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَبْنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: «لَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الَّتِي أُسْرِيَ بِي فِيهَا وَجَدْتُ ‌رَائِحَةً ‌طَيِّبَةً الحدیث[13]

علامہ مقدسی کا احادیثِ مختارہ میں حماد عن عطا کی روایت کو وارد کرنا واضح دلیل ہے کہ علامہ مقدسی کی نگاہ میں حماد کا سلمہ سے سماع بعد از اختلاط اور نا درست نہیں بلکہ قبل از اختلاط اور صحیح ہے۔

علامہ أبو العباس قرطبی

امام ابو العباس ضیاء الدین احمد بن عمر انصاری قرطبی متوفی ۶۵۶ھ کا شمار فقہ اور حدیث کے ماہرین میں ہوتا ہے۔ آپ نے بھی امام علی علیہ السلام سے مروی مذکورہ بالا حدیث کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا:

صح من حديث علي مرفوعًا[14]

یعنی امام علی علیہ السلام سے مرفوعا صحیح حدیث مروی ہے۔

  • سراج الدین ابنِ ملقن متوفی ۸۰۴ھ نے تحفۃ المحتاج میں اس حدیث کا تذکرہ کرنے کے بعد کہا:

وَصَححهُ الْقُرْطُبِيّ فِي شَرحه لمُسلم[15]

قرطبی نے مسلم کی شرح میں اس کو صحیح قرار دیا۔

حماد عن عطا سے مروی حدیث کو صحیح قرار دینے کا مطلب بالکل واضح ہے کہ علامہ أبو العباس قرطبی کی نگاہ میں بھی حماد کا عطا سے سماع بعد از اختلاط نہیں۔ اور اگر علامہ أبو العباس قرطبی حماد کا عطا سے سماع عطا کے اختلاط کے بعد مانتے تو اس روایت کو صحیح ٹھہرانے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ الا آنکہ قبل از اختلاط اور بعد از اختلاط مرویات کے بیچ کوئی واضح حد بندی ہو۔ اور بلا شبہ ایسی تو کوئی بات نہیں۔ لہذا صورت ایک ہی بچتی ہے اور وہ یہ کہ :

علامہ أبو العباس قرطبی کی نگاہ میں حماد کا عطا سے سماع قبل از اختلاط ہو۔

پس بلا شبہ یہی مراد اور یہی درست ہے۔ وللہ الحمد

حافظ منذری

حافظ زکی الدین منذری متوفی ۶۵۶ھ نے الترغیب والترہیب میں واضح الفاظ میں کہا کہ حماد کا عطا سے سماع اختلاط سے پہلے کا ہے۔ لکھتے ہیں:

رَوَاهُ أَحْمد وَالطَّبَرَانِيّ إِلَّا أَنه قَالَ أَلا أدلك على كنز من كنوز الْجنَّة وَإِسْنَاده صَحِيح إِن شَاءَ الله فَإِن ‌عَطاء بن السَّائِب ثِقَة وَقد حدث عَنهُ ‌حَمَّاد بن سَلمَة قبل اخْتِلَاطه[16]

اس حدیث کو احمد اور طبرانی نے روایت کیا لیکن اس میں فرمایا: کیا میں تجھے جنتی خزانوں میں سے ایک خزانے پر رہنمائی نہ کروں؟ اور اس کی اسناد – ان شاء اللہ تعالی – صحیح ہے کیونکہ عطا بن سائب ثقہ ہے اور حماد بن سلمہ نے ان سے ان کے اختلاط سے پہلے حدیث بیان کی ہے۔

ابن الترکمانی

أبو الحسن علاء الدین علی بن عثمان بن ابراہیم ماردینی معروف بہ ابن الترکمانی متوفی ۷۵۰ھ حضرت مولا علی علیہ السلام سے مروی مذکورہ بالا حدیث کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وعضده ايضا حديث على سمعت النبي صلى الله عيه وسلم قال من ترك موضع شعرة من جسده من جنابة لم يصبها الماء فعل به كذا وكذا من النار * قال على فمن ثم ‌عاديت ‌رأسي * اخرجه البيهقى فيما مضى في باب تخليل اصول الشعر ولم يتكلم عليه بشئ واخرجه أبو داود ايضا برجال مسلم وسكت عنه فهو حسن عنده على ما عرف[17]

اور اس کی تائید حضرت علی سے مروی حدیث بھی کرتی ہے۔ (فرمایا) میں نے نبی ﷺ کو سنا ، آپ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اپنے بدن سے جنابت سے ایک بال کی بھی جگہ کو چھوڑ دیا جس کو پانی نہ پہنچا ، اس کے ساتھ آگ سے ایسا ایسا کیا جائے گا۔ حضرت علی نے فرمایا: اسی وجہ سے میں نے اپنے سر سے دشمنی کر لی۔ بیہقی نے ما قبل میں بالوں کی جڑوں کے خلال کے باب میں اسے روایت کیا اور اس پہ کوئی گفتگو نہیں کی۔ اور أبو داود نے بھی اسے مسلم کے رجال کے ذریعے روایت کیا اور اس کے بارے میں خاموشی رکھی۔ پس یہ روایت آپ کے نزدیک حسن ہوئی جیسا کہ معروف ہے۔

حافظ ابنِ کثیر

حماد کی عطا سے روایت کو لائقِ اعتماد جاننے والوں میں ایک نام حافظ عماد الدین اسماعیل بن کثیر متوفی ۷۷۴ھ  کا بھی آتا ہے۔

  • اپنی تفسیر میں رسول اللہ ﷺ کے اسراء اور پھر بنتِ فرعون کی ماشطہ والی عبد اللہ بن عباس سے مروی روایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا:

قال البيهقي: أخبرنا علي بن أحمد بن عبدان، أنبأنا أحمد بن عبيد الصفار، ثنا دبيس المعدل، ثنا عفان قال: ثنا حماد بن سلمة عن عطاء بن السائب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “لما أسري بي مرت بي رائحة طيبة الحدیث

پھر مکمل حدیث ذکر کرنے کے بعد کہا:

إسناد لا بأس به ولم يخرجوه.[18]

یہ ایک ایسی اسناد ہے جس میں کوئی حرج نہیں اور انہوں نے اس کو روایت نہیں کیا۔

  • دوسرے مقام پہ مسند احمد کی ایک روایت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا:

وقال الإمام أحمد: حدثنا عبد الصمد، حدثنا ‌حماد عن ‌عطاء بن السائب عن أبيه عن عبد الله بن عمر، أن اليهود كانوا يقولون لرسول الله صلى الله عليه وسلم  الحدیث

مکمل حدیث کا ذکر کرنے کے بعد کہا:

 إسناد حسن ولم يخرجوه.[19]

یہ اسناد حسن ہے اور انہوں نے اس کو روایت نہیں کیا۔

اگر حافظ ابن کثیر کی نگاہ میں حماد کا عطا سے سماع بعد از اختلاط اور غیر ممیز ہوتا تو ایک بار اس سند کو إسناد لا بأس به  اور دوسری بار إسناد حسن نہ کہا جاتا۔

نور الدین ہیثمی

علامہ ابو الحسن نور الدین علی بن ابی بکر ہیثمی متوفی ۸۰۷ھ نے بھی متعدد بار تصریح کی کہ حماد بن سلمہ کا عطا بن سائب سے سماع عطا کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔

  • لکھتے ہیں:

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَفِيهِ ‌عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ وَهُوَ ثِقَةٌ اخْتَلَطَ، وَلَكِنَّهُ مِنْ رِوَايَةِ ‌حَمَّادِ بْنِ ‌سَلَمَةَ عَنْ ‌عَطَاءٍ، وَحَمَّادٌ سَمِعَ مِنْهُ ‌قَبْلَ ‌الِاخْتِلَاطِ – قَالَهُ أَبُو دَاوُدَ فِيمَا رَوَاهُ أَبُو عُبَيْدٍ الْآجُرِّيُّ عَنْهُ[20]

اسے احمد اور بزار نے روایت کیا اور اس (کی سند) میں عطا بن سائب ہے اور وہ ایسا ثقہ ہے جسے اختلاط ہوا لیکن یہ حماد بن سلمہ کی عطا سے روایت سے ہے اور حماد نے سلمہ سے اختلاط سے پہلے سنا۔ یہ بات أبو داود نے کی اس روایت میں جو أبو عبید آجری نے آپ سے کی۔

  • دوسرے مقام پہ کہا:

رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ، لِأَنَّ ‌حَمَّادَ بْنَ ‌سَلَمَةَ رَوَى عَنْ ‌عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ‌قَبْلَ ‌الِاخْتِلَاطِ.[21]

اسے احمد نے روایت کیا اور اس کے رجال ثقات ہیں کیونکہ حماد بن سلمہ نے عطا بن سائب سے اختلاط سے پہلے روایت کی۔

  • ایک مقام پہ کہا:

رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالطَّبَرَانِيُّ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: ” «أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ»؟ “. وَرِجَالُهُمَا رِجَالُ الصَّحِيحِ غَيْرَ ‌عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، وَقَدْ حَدَّثَ عَنْهُ ‌حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ قَبْلَ الِاخْتِلَاطِ.[22]

اسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا۔ مگر اس میں کہا: کیا میں جنتی خزانوں میں سے ایک خزانے پر تیری رہنمائی نہ کروں؟ احمد اور طبرانی دونوں کے رجال عطا بن سائب کے علاوہ صحیح کے رجال ہیں اور تحقیق عطا سے حماد بن سلمہ نے اختلاط سے پہلے حدیث بیان کی۔

  • چند صفحات بعد کہا:

رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَفِيهِ عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، وَقَدْ سَمِعَ مِنْهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ قَبْلَ اخْتِلَاطِهِ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ.[23]

اسے احمد نے روایت کیا اور اس میں عطا بن سائب ہے اور تحقیق حماد بن سلمہ نے عطا سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا اور اس کے باقی رجال ثقات ہیں۔

شہاب الدین بوصیری

حافظ الحدیث ابو العباس احمد بن ابی بکر بوصیری متوفی ۸۴۰ھ کا شمار بھی ان محدثین میں ہوتا ہے جن کے نزدیک حماد کا عطا سے سماع درست اور لائقِ اعتماد ہے۔ اتحاف الخیرۃ المہرۃ میں ایک حدیث ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

وَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ: ثَنَا عَفَّانُ، ثَنَا ‌حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ‌عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو “أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، وَسَبَّحَ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم: مَنْ قَالَهَا؟ ‌فَقَالَ ‌الرَّجُلُ: ‌أَنَا. فَقَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُ الملائكة تتلقى بِهَا بَعْضُهَا بَعْضًا”.

اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد حافظ بوصیری نے کہا:

هَذَا إِسْنَادٌ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.[24]

اس اسناد کے رجال ثقات ہیں۔

علامہ عینی

علامہ محمود بن احمد بن موسی بدر الدین عینی متوفی ۸۵۵ھ کا شمار ان گنے چنے حنفیوں میں ہوتا ہے جو علمِ حدیث کے ساتھ امتیازی تعلق رکھتے ہیں۔  یوں تو آپ نے بھی دیگر حنفی علماء کی طرح جا بجا حماد عن عطا کی مرویات سے استدلال کیا ہے لیکن ہدایہ کی شرح میں ایک مقام پہ حماد عن عطا والی روایت کا ذکر کرنے کے بعد اس کی سند کے حسن ہونے کی تصریح بھی کی ہے۔ لکھتے ہیں:

وعن علي رضي الله عنه عن النبي عليه السلام: «من ‌ترك ‌موضع ‌شعرة لم يصبه الماء فعل به كذا وكذا من النار” قال علي: فمن ثم عاديت شعري وكان يجزه» رواه أبو داود وأحمد وغيرهما بإسناد حسن.[25]

حضرت علی سے مروی ہے ، آپ نبی ﷺ سے راوی: جس شخص نے ایک بال کی جگہ کو چھوڑ دیا جسے پانی نہ پہنچا ، اس کے ساتھ آگ سے ایسا ایسا کیا جائے گا۔ حضرت علی نے فرمایا: پس اسی وجہ سے میں نے اپنے بالوں کے ساتھ دشمنی کر لی۔ اور حضرت علی اپنے بالوں کو کاٹ دیا کرتے تھے۔ اس حدیث کو ابو داود ، احمد وغیرہما نے اسناد حسن کے ساتھ روایت کیا۔

سطورِ بالا میں ہم اس حدیث کی سند ذکر کر چکے ہیں اور واضح ہو چکا ہے کہ یہ حدیث حماد بن سلمہ عطا بن سائب سے روایت کرتے ہیں۔ عظیم حنفی محدث علامہ بدر الدین عینی کا حماد عن عطا روایت کو حسن ٹھہرانا ان کی نگاہ میں حماد کے عطا سے سماع کی حیثیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔

حافظ سیوطی

جیسے حافظ جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر  سیوطی متوفی ۹۱۱ھ کی شخصیت اہلِ علم کے ہاں کسی تعارف کی محتاج نہیں یونہی آپ کی وسعتِ مطالعہ اور کثرتِ اطلاع بھی اہلِ اطلاع پر مخفی نہیں۔ اس وسعتِ نظر اور کثرتِ اطلاع کے باوجود آپ نے حماد عن عطا کی روایت کو صحیح قرار دیا۔

  • سطورِ بالا میں بنتِ فرعون کی ماشطہ والی روایت جو حماد عن عطا مروی ہے۔ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا:

وَأخرج أَحْمد وَالنَّسَائِيّ وَالْبَزَّار وَالطَّبَرَانِيّ وَابْن مرْدَوَيْه وَالْبَيْهَقِيّ فِي الدَّلَائِل بِسَنَد صَحِيح عَن ابْن عَبَّاس رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُول الله صلى الله عليه وسلم: لما أسرِي بِي مرت بِي رَائِحَة طيبَة الحدیث[26]

امام احمد ، امام نسائی ، بزار ، طبرانی ، ابنِ مرودیہ اور بیہقی نے دلائل النبوۃ میں صحیح سند کے ساتھ عبد اللہ بن عباس سے روایت کیا۔ کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب مجھے رات کے وقت سیر کرائی گئی تو میرے پاس سے ایک پاکیزہ خوشبو گزری۔ الحدیث

  • خصائصِ کبری کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں:

وَأخرج احْمَد وَالنَّسَائِيّ وَالْبَزَّار وَالطَّبَرَانِيّ وَالْبَيْهَقِيّ وَابْن مرْدَوَيْه بِسَنَد صَحِيح من طَرِيق سعيد بن جُبَير عَن ابْن عَبَّاس قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى الله عليه وسلم لما أسرِي بِي مرت بِي رَائِحَة طيبَة الحدیث[27]

امام احمد ، امام نسائی ، امام بزار ، امام طبرانی ، امام بیہقی اور امام ابن مردویہ نے صحیح سند کے ساتھ سعید بن جبیر کے طریق سے روایت کیا اور وہ عبد اللہ بن عباس سے راوی۔ کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب مجھے رات کو سیر کرائی گئی تو میرے پاس سے پاکیزہ ہوا گزری الحدیث۔

فاضلِ بریلی کا سیوطی پر اعتماد

دعوتیے کسی اور عالم ، فقیہ اور محدث کی نہیں مانتے تو کم از کم حافظ سیوطی کی بات کو مان لینا چاہیے۔ کیونکہ حضرت فاضلِ بریلی کو علامہ سیوطی پر اس قدر اعتماد تھا کہ سیوطی کی عبارت من وعن ذکر کر دیتے اور بسا اوقات اس کا حوالہ دینے کی بھی ضرورت محسوس نہ کرتے۔ اگر ہم فتاوی رضویہ کو اٹھا کر دیکھیں تو ایسی لا تعداد مثالیں ہمیں دکھائی دیں گی جہاں حضرت فاضلِ بریلی نے من وعن سیوطی کی عبارات کو سیوطی کی جانب نسبت کے بغیر نقل کیا ہے۔

  • در منثور میں ہے:

أخرج أَحْمد وَابْن أبي حَاتِم وَالطَّبَرَانِيّ عَن أبي ‌أُمَامَة

دو سطر بعد کہا:

وَأخرج أَحْمد وَابْن ‌مرْدَوَيْه وَالْبَيْهَقِيّ فِي الشّعب عَن ‌أبي ‌ذَر[28]

فتاوی رضویہ کی پہلی جلد میں ان دونوں سطروں کو یکجا کر کے حضرت فاضلِ بریلی نے کہا:

رواہ احمد وابن حاتم والطبرانی عن ابی امامۃ واحمد وابن مردویہ والبیھقی فی الشعب عن ابی ذر رضی اللہ تعالی عنہما۔[29]

حضرت فاضلِ بریلی کا علامہ سیوطی پر اعتماد ہی تو ہے کہ علامہ سیوطی کی عبارت کو ان کی کتاب سے اٹھا کر اپنی کتاب میں شامل کر لیا اور اعتماد کا درجہ بھی ایسا کہ علامہ سیوطی کا حوالہ دینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔

مزید ملاحظہ کیجیے:

  •  در منثور ہی میں ہے:

أخرج ‌الْفرْيَابِيّ وَعبد الرَّزَّاق وَسَعِيد بن مَنْصُور وَعبد بن حميد وَابْن جرير وَابْن الْمُنْذر وَابْن أبي حَاتِم وَالطَّبَرَانِيّ وَأَبُو الشَّيْخ وَابْن مرْدَوَيْه وَالْحَاكِم وَصَححهُ وَالْبَيْهَقِيّ فِي الدَّلَائِل عَن ابْن عَبَّاس[30]

حضرت فاضلِ بریلی نے علامہ سیوطی کی اس گفتگو کو اردو زبان میں ڈھالتے ہوئے فتاوی رضویہ میں اس انداز میں درج کیا:

فریابی اور عبدالرزاق اپنے مصنف اور سعید بن منصور سنن میں اور عبد بن حمید اور ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم و طبرانی وا بوا لشیخ وابن مردویہ اور حاکم مستدرک میں بافادہ تصحیح اور بہیقی دلائل النبوۃ میں حضرت  عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اس کی تفسیر میں راوی[31]

یہ دو حوالے ہم نے محض بطورِ مثال پیش کیے ہیں ورنہ فتاوی رضویہ میں ان گنت ایسے مقامات ہیں جہاں حضرت فاضلِ بریلی نے علامہ سیوطی کی کلام کو اٹھا کر من وعن درج کر دیا اور جیسا کہ ہم ذکر کر چکے کہ گفتگو کی صحت پر اعتماد کا یہ عالم تھا کہ علامہ سیوطی کا حوالہ بھی نہ دیا کرتے تھے۔ جب فاضلِ بریلی علامہ سیوطی پر اتنا اعتماد کریں تو فاضلِ بریلی کے نام کو بیچ کر کھانے والوں کو فاضلِ بریلی ہی کی حیا کرتے ہوئے سیوطی کی بات کو مان لینا چاہیے۔

عبد الرؤوف مناوی

علامہ زین الدین محمد عبد الرؤوف بن تاج العارفین مناوی متوفی ۱۰۳۱ھ جامع صغیر کی شرح میں لکھتے ہیں:

وهو حديث صحيح كما جزم به ابن حجر وهو خبر أبي داود وابن ماجه عن علي مرفوعا: من ‌ترك ‌موضع ‌شعرة من جنابة لم يغسلها فعل به كذا وكذا الحديث بتمامه[32]

اور وہ حدیث صحیح ہے جیسا کہ ابنِ حجر نے اس کے بارے میں جزم کیا۔ اور وہ أبو داود و ابنِ ماجہ کی حضرت علی سے مرفوعا حدیث ہے: جس شخص نے جنابت میں سے ایک بال کی جگہ کو چھوڑ دیا ، اسے نہ دھویا ، اس کے ساتھ ایسا ایسا ہو گا۔ مکمل حدیث۔

ہم پہلے ذکر کر چکے کہ یہ حدیث حماد عن عطا مروی ہے۔ پس علامہ مناوی کا حماد عن عطا روایت کو صحیح ٹھہرانا واضح دلیل ہے کہ مناوی کی نگاہ میں حماد بن سلمہ کا عطا بن سائب سے سماع درست اور قبل از اختلاط ہے۔ ورنہ ان کی سند سے مروی حدیث کو صحیح کہنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔


[1] (تہذیب الآثار – مسند علی ج ۳ ص ۲۷۶ ، ۲۷۷)

[2] (مستدرک علی الصحیحین  ج ۲ ص ۵۳۸ (۳۸۳۵))

[3] (تلخیص ذہبی حدیث ۳۸۳۵)

[4] (تاریخ الإسلام ج ۱ ص ۱۷۴ ، ۱۷۵)

[5] (العلو للعلی الغفار ص ۵۴)

[6] (التجرید للقدوری ج ۲ ص ۱۰۰۳)

[7] التنبیہ علی مشکلات الہدایہ ج ۲ ص ۷۶۷ ، ۷۶۸

[8] البنایہ شرح ہدایہ ج ۳ ص ۱۴۰

[9] فتح القدیر للکمال بن الہمام ج ۲ ص ۸۵

[10] فتح باب العنایہ ج ۱ ص ۳۴۵

[11] مراقی الفلاح ص ۲۰۶

[12] (التجرید للامام القدوری ج ۱۲ ص ۶۲۶۴ ، ۶۲۶۵)

[13] (الاحادیث المختارۃ ج ۱۰ ص ۲۷۷ (۲۹۱))

[14] (المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم ج ۱ ص ۵۸۶)

[15] (تحفۃ المحتاج الی ادلۃ المنہاج ج ۱ ص ۲۰۵)

[16] (الترغیب والترہیب ج ۲ ص ۲۹۱)

[17] (الجوہر النقی ج ۱ ص ۱۷۸)

[18] (تفسیر ابن کثیر ج ۸ ص ۴۱۰ ، ۴۱۱)

[19] (تفسیر ابن کثیر ج ۸ ص ۷۴ ، ۷۵)

[20] (مجمع الزوائد ج ۲ ص ۱۰۵)

[21] (مجمع الزوائد ج ۷ ص ۱۱۲)

[22] (مجمع الزوائد ج ۱۰ ص ۹۷)

[23] (مجمع الزوائد ج ۱۰ ص ۱۰۰)

[24] (اتحاف الخیرۃ المہرۃ ج ۲ ص ۱۶۰)

[25] (البنایہ شرح ہدایہ ج ۱ ص ۳۱۶)

[26] (الدر المنثور ج ۵ ص ۲۱۲)

[27] (الخصائص الکبری ج ۱ ص ۲۶۵)

[28] (الدر المنثور ج ۳ ص ۳۴۲)

[29] (فتاوی رضویہ ج ۱ ص ۱۰۵۸)

[30] (الدر المنثور ج ۳ ص ۲۶۰)

[31] (فتاوی رضویہ ج ۲۹ ص ۶۶۸)

[32] (فیض القدیر ج ۲ ص ۴۴۵)

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے