بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ والباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ
تمہیدی گفتگو
حضرت سیدنا حمزہ بن عبد المطلب۔ امتِ مسلمہ کے وہ مظلوم تر شہید ہیں کہ جنہیں نہ صرف شہید کیا گیا بلکہ آپ کو شہید کرنے کے بعد آپ کے بدنِ اقدس کے ساتھ وہ بے حرمتی روا رکھی گئی جس کو کوئی مسلمان کجا ، کوئی انسان بھی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ انسان انسانیت کے دائرے کے اندر ہی گنا جاتا ہو۔ حضرت حمزہ کو نہ صرف شہید کیا گیا بلکہ شہید کرنے کے بعد آپ کے مبارک پیٹ کو چیر کر آپ کا کلیجہ نکالا گیا اور ابو سفیان کی اہلیہ ہند بنت عتبہ نے اسے منہ میں لے کر چبایا لیکن کھانے کی قدرت نہ ہو سکی۔
جگر خواری کے بارے نصِّ صریح
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے۔ فرمایا:
فَنَظَرُوا فَإِذَا حَمْزَةُ قَدْ بُقِرَ بَطْنُهُ، وَأَخَذَتْ هِنْدُ كَبِدَهُ فَلَاكَتْهَا، فَلَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَأْكُلَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: ” أَأَكَلَتْ مِنْهُ شَيْئًا؟ “، قَالُوا: لَا. قَالَ: ” مَا كَانَ اللهُ لِيُدْخِلَ شَيْئًا مِنْ حَمْزَةَ النَّارَ “.[1]
صحابہ نے دیکھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت سیدنا حمزہ کا پیٹ چاک کر دیا گیا ہے اور ہند نے آپ کے جگر کو لے کر اس کو چبایا لیکن اس کو کھا نہ سکی۔ پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا ہند نے اس سے کوئی چیز کھائی؟ صحابہ نے عرض کی: نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ سبحانہ وتعالی حضرت حمزہ کے کسی حصہ کو جہنم میں داخل کرنے والا نہیں۔
دورِ کفر کا واقعہ
نہ تو ہمیں کسی قسم کا تردد ہے اور نہ ہی کوئی ہوشمند اس بات میں شک کر سکتا ہے کہ ہند بنت عتبہ کی جانب سے یہ غیر انسانی حرکت کفر وشرک کے دور میں ہوئی۔ اور اس بارے میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس معرکہ میں ابو سفیان اور دیگر کفار ومشرکین نہ صرف حضرت حمزہ اور دیگر صحابہ کو قتل کرنے کے لیے نکلے تھے بلکہ وہ لوگ خود رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس کو بھی شہید کر دینا چاہتے تھے۔ اور ان لوگوں کی نہ صرف یہ نیت تھی بلکہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس پہ حملہ بھی کیا گیا اور آپ ﷺ کے دندان مبارک کو شہید کیا ، آپ ﷺ کو زخمی بھی کیا گیا۔
جو لوگ سید الانبیاء وخاتم الرسل کی گردنِ ناز پہ تلوار چلانے کی ناپاک نیت کے ساتھ لشکر لے کر میلوں کا سفر طے کر کے پہنچ گئے ہوں ، کیا ان سے یہ بات کچھ بعید ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے چچا جو اپنی بے انتہا عظلمتوں کے باوجود نہ تو نبی ہیں اور نہ ہی رسول۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے نام لیوا اور آپ ﷺ کے امتی ہیں۔ تو جو لوگ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس کو قتل کرنا چاہتے ہوں ، کیا وہ رسول اللہ ﷺ کے چچا کے بارے میں انسانی اقدار کی پاسداری کو ضروری اور واجب سمجھیں گے؟
کسی بھی معمولی عقل کے حامل انسان سے یہ سوال پوچھ لیا جائے تو وہ برملا یہ جواب دے گا کہ جن لوگوں کی نگاہ میں رسول اللہ ﷺ کی اپنی ذات کی حیا نہ تھی ، جو خود رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنا چاہتےتھے اور آپ ﷺ کو زخمی بھی کیا اور جب آپ ﷺ کی شہادت کی جھوٹی خبر پھیل گئی تو ان لوگوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ یقینا وہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ اور آپ ﷺ کے چچا سیدنا حمزہ سلام اللہ تعالی علیہ کے جسموں کے ساتھ کسی بھی قسم کی گھٹیا سے گھٹیا تر حرمت کو بھی کر گزرنے میں ذرہ بھر شرم وحیا محسوس نہ کریں گے۔
یہ جواب ہر عقلمند اور ہر ہوشمند کا ہو گا لیکن دعوتِ اسلامی پر ایسی نحوست چھا چکی ہے اور وہ لوگ بنو امیہ کے دفاع اور بنو امیہ کی جھوٹی مدح وثنا میں اس قدر پاگل ہو چکے ہیں کہ وہ ظالم امویوں کے دورِ کفر وشرک میں بھی انہیں داتا وخواجہ سے بہتر اور غوث وقطب سے پارسا تر ثابت کرنے کی ناپاک سعی میں مصروف ہیں۔
مفتیِ دعوتِ اسلامی کی زیادتی
چند دن پہلے حضرت سید الشہداء سیدنا حمزہ بن عبد المطلب کا یومِ شہادت تھا۔ دعوتِ اسلامی کے اہم ترین ذمہ دار مفتی حسان کو اللہ سبحانہ وتعالی نے حضرت سید الشہداء کی عظمت وشان بیان کرنے کی توفیق تو نہ دی لیکن اس موقع پر موصوف نے اموی وفاداری کا حق ادا کرنے کی سعیِ نا مشکور ضرور کی۔ حضرت سید الشہداء کی شہادت کے موقع پر آپ کی شان وعظمت کے بیان کے بجائے ہند بنت عتبہ کے دورِ کفر وشرک میں پیش آنے والے حادثہِ جگر خوری کی تردید اور دورِ کفرو شرک میں بھی ہند بنت عتبہ کی اس جرم سے براءت بیان کرتے دکھائی دئیے گئے۔
مفتیِ دعوتِ اسلامی کی گفتگو کا خلاصہ
دعوتِ اسلامی کے مفتی نے اس واقعہ کا تذکرہ کیا اور اس کے بارے میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا:
مطلقا یہ واقعہ درست نہیں ہے کہ حضرت سیدتنا ہند رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا کلیجہ چبایا ہو۔
پھر سطورِ بالا میں مذکور حضرت عبد اللہ بن مسعود کی تصریح کہ:
فَنَظَرُوا فَإِذَا حَمْزَةُ قَدْ بُقِرَ بَطْنُهُ، وَأَخَذَتْ هِنْدُ كَبِدَهُ فَلَاكَتْهَا، فَلَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَأْكُلَهَا
صحابہ نے دیکھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت سیدنا حمزہ کا پیٹ چاک کر دیا گیا ہے اور ہند نے آپ کے جگر کو لے کر اس کو چبایا لیکن اس کو کھا نہ سکی۔
اس کا تذکرہ کرنے کے بعد کہا:
اس کی سند پر بھی محققین کو کلام ہے اور ساتھ اس کے متن پر بھی علماء کو کلام ہے۔
سند پر کلام کرتے ہوئے کہا:
اس کی سند میں ایک راوی ہیں عطاء بن سائب اور یہ ایسے راوی ہیں جو اختلاط کا شکار ہوئے۔ (ملخصا)
پھر عطا بن سائب سے راوی حماد بن سلمہ کے بارے میں کہا کہ:
حماد بن سلمہ نے عطا سے قبل از اختلاط اور بعد از اختلاط ہر دو حال میں روایت لی ہے۔ (ملخصا)
پھر اپنی بات کی تائید کے لیے حافظ ابنِ حجر عسقلانی کی تہذیب التہذیب کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کلام پیش کی:
قلت. فيحصل لنا من مجموع كلامهم أن سفيان الثوري وشعبة وزهير او زائدة وحماد بن زيد وأيوب عنه صحيح ومن عداهم يتوقف فيه إلا حماد بن سلمة فاختلف قولهم والظاهر إنه سمع منه مرتين مرة مع أيوب كما يومي إليه كلام الدارقطني ومرة بعد ذلك لما دخل إليهم البصرة وسمع منه مع جرير وذويه والله أعلم[2]
یعنی اہلِ علم کی کلام کے مجموعے سے ہمارے لیے یہ بات حاصل ہوئی کہ سفیان ثوری ، شعبہ ، زہیر ، زائدہ ، حماد بن زید اور ایوب کا عطا بن سائب سے سماع درست ہے۔ اور ان کے علاوہ میں توقف کیا جائے گا سوائے حماد بن سلمہ کے۔ کیونکہ حماد کے بارے میں اہلِ علم کی گفتگو میں اختلاف ہے۔ اور ظاہر یہ ہے کہ حماد بن سلمہ نے عطا بن سائب سے دو بار سنا۔ ایک بار ایوب کے ساتھ جیسا کہ اس کی جانب دار قطنی کی گفتگو اشارہ کرتی ہے اور دوسری بار اس کے بعد جب عطا ان حضرات کے پاس بصرہ آئے اور حماد بن سلمہ نے ان سے جریر اور ان جیسوں کے ساتھ سنا۔ اور اللہ سبحانہ وتعالی بہتر جاننے والا ہے۔
حماد کے عطا سے سماع کا وقت
اقول وباللہ التوفیق:
میں سمجھتا ہوں کہ یا تو مفتیِ دعوتِ اسلامی کو علمِ حدیث کا سرے سے علم ہی نہیں یا وہ بنو امیہ کی محبت میں اس قدر اندھے ہو گئے ہیں کہ امویوں کے دورِ کفر کے معاملات کے دفاع کے لیے تنکے کا سہارا ڈھونڈ رہے ہیں۔
ورنہ حق یہ ہے کہ حماد بن سلمہ کا عطا بن سائب سے سماع عطا کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔ یہی جمہور اہلِ علم کا موقف ، یہی درست اور یہی قابلِ اعتماد ہے۔ بعض حضرات نے اگر اس کے بر خلاف کچھ کہا ہے تو وہ محض اشتباہ کی بنیاد پر کہا گیا ہے جو سرے سے لائقِ اعتماد نہیں۔
اس بارے میں الاستاذ المحدث وجاہت حسین حنفی دام ظلہ نے بہت ہی عمدہ گفتگو فرمائی ہے جسے اس لنک پہ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:
تصریحاتِ اہلِ علم
وہ اہلِ علم جنہوں نے حماد بن سلمہ کا عطا سے سماع قبل از اختلاط مانا اور اس کی صراحت کی ہے ، ان کی تعداد معمولی نہیں۔ ذیل میں ہم چند ان شخصیات کے نام اور ان کی تصریحات کا تذکرہ کرنا چاہیں گے جنہوں نے برملا کہا ہے کہ حماد بن سلمہ کا عطا بن سائب سے سماع عطا کے اختلاط سے پہلے کا ہے اور درست ہے۔
امام یحیی بن معین
امام جرح وتعدیل امام یحیی بن معین بغدادی متوفی ۲۳۳ھ نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ:
حماد بن سلمہ کا عطا بن سائب سے سماع عطا کے اختلاط سے پہلے کے دور کا ہے۔
دوری کی روایت
دوری کی روایت میں ہے:
سَمِعت يحيى يَقُول حَدِيث سُفْيَان وَشعْبَة بن الْحجَّاج وَحَمَّاد بن سَلمَة عَن عَطاء بن السَّائِب مُسْتَقِيم وَحَدِيث جرير بن عبد الحميد وَأَشْبَاه جرير لَيْسَ بِذَاكَ لتغير عَطاء فِي آخر عمره[3]
میں نے جناب یحیی کو کہتے سنا: سفیان ، شعبہ بن حجاج اور حماد بن سلمہ کی عطا بن سائب سے حدیث درست ہے۔ اور عطا کے (حافظہ کے) آخری عمر میں بدل جانے کی وجہ سے جریر بن عبد الحمید اور جریر جیسوں کی روایت لائقِ اعتماد نہیں۔
عبد اللہ دورقی کی روایت
عبد اللہ دورقی کی روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
قَال يَحْيى بن مَعِين وحديث شُعْبَة وسفيان وحماد بن سلمة، عن عطاء بن السائب مستقيم[4]
یحیی بن معین نے کہا: اور شعبہ ، سفیان اور حماد بن سلمہ کی عطا بن سائب سے حدیث درست ہے۔
ابنِ جنید کی روایت
ابنِ جنید کی روایت میں ہے:
قال يحيى: «وحماد بن سلمة سمع من عطاء بن السائب قديمًا قبل الاختلاط» .[5]
یحیی بن کہا: اور حماد بن سلمہ نے عطا بن سائب سے پرانے وقت میں اختلاط سے پہلے سنا۔
احمد بن زہیر
احمد بن زہیر کہتے ہیں:
سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ يَقُولُ: كُلُّ شَيْءٍ مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ضَعِيفٌ، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ حَدِيثِ شُعْبَةَ، وَسُفْيَانَ، وَحَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ[6]
میں نے یحیی بن معین کو کہتے سنا: عطا بن سائب کی تمام مرویات ضعیف ہیں سوائے شعبہ ، سفیان اور حماد بن سلمہ کی حدیث کے۔
- ابنِ عبد البر لکھتے ہیں:
قال يحيى بنُ معين: روايةُ حمّادِ بنِ سلمةَ عن عطاءِ بنِ السَّائبِ صَحيحَةٌ؛ لأنَّه سمِع منه قبلَ أن يتغيَّر، وكذلك سماعُ الثوريِّ وشعبةَ منه.[7]
یحیی بن معین نے کہا: حماد بن سلمہ کی عطا بن سائب سے روایت صحیح ہے۔ کیونکہ حماد نے عطا سے ان کے (ذہنی) تغیر سے پہلے سنا ہے۔ اور ثوری اور شعبہ کا عطا سے سماع یونہی ہے۔
- ابنِ رجب حنبلی لکھتے ہیں:
وقال ابن أبي خيثمة: سمعت يحيى يقول: شعبة وسفيان وحماد بن سلمة في عطاء خير من هؤلاء الذين بعدهم.[8]
اور ابنِ ابی خیثمہ نے کہا: میں نے یحیی کو کہتے سنا: شعبہ اور سفیان اور حماد بن سلمہ عطا کے معاملے میں ان حضرات سے بہتر ہیں جو ان کے بعد ہیں۔
امام ابو داود
امام ابو داود سجستانی متوفی ۲۷۵ھ کا شمار بھی ان حضرات میں ہوتا ہے جن کے نزدیک حماد بن سلمہ کا عطا سے سماع ان کے اختلاط وتغیر سے پہلے ہوا۔
مسائلِ امام احمد میں لکھتے ہیں:
قَالَ غَيْرُ أَحْمَدَ: قَدِمَ عَطَاءٌ الْبَصْرَةَ قَدْمَتَيْنِ، فَالْقَدْمَةُ الْأُولَى، سَمَاعُهُمْ صَحِيحٌ، وَسَمِعَ مِنْهُ فِي الْقَدْمَةِ الْأُولَى: حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، وَهِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، وَالْقَدْمَةُ الثَّانِيَةُ كَانَ مُتَغَيِّرًا فِيهَا، سَمِعَ مِنْهُ: وُهَيْبٌ، وَإِسْمَاعِيلُ، وَعَبْدُ الْوَارِثِ، سَمَاعُهُمْ مِنْهُ فِيهِ ضَعِيفٌ “.[9]
امام احمد کے علاوہ (باقی حضرات) نے کہا: عطا دو بار بصرہ آئے۔ پس پہلی آمد میں بصرہ والوں کا ان سے سماع درست ہے۔ اور پہلی بار میں عطا سے حماد بن سلمہ ، حماد بن زید اور ہشام دستوائی نے سماع کیا۔ اور دوسری آمد میں عطا (کا حافظہ) بدل چکا تھا۔ دوسری آمد میں عطا سے وہیب ، اسماعیل اور عبد الوارث نے سنا۔ ان حضرات کا عطا سے سماع ضعیف ہے۔
یعقوب بن سفیان فسوی
امام یعقوب بن سفیان بن جوان فارسی متوفی ۲۷۷ھ نے دو ٹوک الفاظ میں حماد بن سلمہ کا عطا سے سماع قبل از اختلاط تسلیم کیا ہے۔ کہتے ہیں:
وَعَطَاءٌ ثقة، حديثه حجة، ما روى عنه سفيان وشعبة وحماد بن سلمة، وسماع هؤلاء سماع قديم[10]
اور عطا ثقہ ہیں اور ان کی حدیث حجت ہے۔ جو کچھ ان سے سفیان ، شعبہ اور حماد بن سلمہ روایت کریں۔ اور ان حضرات کا سماع قدیم ہے۔
تہذیب التہذیب میں ہے:
وقال يعقوب بن سفيان هو ثقة حجة وما روى عنه سفيان وشعبة وحماد بن سلمة سماع هؤلاء سماع قديم[11]
اور یعقوب بن سفیان نے کہا: عطا ثقہ حجت ہے اور جو کچھ ان سے سفیان ، شعبہ اور حماد بن سلمہ روایت کریں۔ ان حضرات کا سماع قدیم ہے۔
امام ابن الجارود
امام ابو محمد عبد اللہ بن علی بن جارود نیشاپوری متوفی ۳۰۷ھ نے بھی اس بات کی تصریح کی کہ حماد بن سلمہ کا عطا سے سماع درست ہے۔
تہذیب التہذیب میں ہے:
وقال ابن الجارود في الضعفاء حديث سفيان وشعبة وحماد بن سلمة عنه جيد وحديث جرير وأشباه جرير ليس بذاك [12]
یعنی ابنِ جارود نے کتاب الضعفاء میں کہا کہ سفیان ، شعبہ اور حماد بن سلمہ کا عطا سے سماع جید ہے اور جریر اور ان جیسوں کا سماع لائقِ اعتماد نہیں۔
امام ابو جعفر طحاوی
جمہور اہلِ علم کے ہاں حماد بن سلمہ کا عطا بن سائب سے سماع عطا کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔ ان میں سے ایک نام امام ابو جعفر طحاوی متوفی ۳۲۱ھ کا بھی ہے۔ عطا بن سائب سے جن حضرات کی روایت مستند اور حجت مانی جاتی ہے ، ان کا شمار کرتے ہوئے امام طحاوی لکھتے ہیں:
الَّذِينَ يَعُدُّونَهُمُ الْحُجَّةَ فِي عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ أَهْلَ الْعِلْمِ بِالْإِسْنَادِ إنَّمَا هُمْ أَرْبَعَةٌ دُونَ مَنْ سِوَاهُمْ شُعْبَةُ، وَالثَّوْرِيُّ، وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ[13]
وہ لوگ جنہیں اسناد کا علم رکھنے والے عطا بن سائب کے بارے میں حجت مانتے ہیں وہ صرف چار ہیں ، نہ کہ ان کے علاوہ کوئی اور: شعبہ ، ثوری ، حماد بن زید اور حماد بن سلمہ۔
- مزید فرمایا:
وَسَمَاعُ الْأَبْيَضِ مِنْ عَطَاءٍ بِالْكُوفَةِ، وَبِهَا كَانَ اخْتِلَاطُ عَطَاءٍ، وَسَمَاعُ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ مِنْهُ بِالْبَصْرَةِ، وَسَمَاعُ أَهْلِهَا مِنْهُ صَحِيحٌ لَمْ يَكُنْ فِي حَالِ اخْتِلَاطِهِ، مِنْهُمُ: الْحَمَّادَانِ: حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ [14]
ابیض کا عطا سے سماع کوفہ میں ہے اور یہیں عطا کو اختلاط ہوا۔ اور جعفر بن سلیمان کا عطا سے سماع بصرہ میں ہوا اور بصرہ والوں کا عطا سے سماع درست ہے ، ان کے اختلاط کی حالت میں نہیں ہے۔ انہی حضرات میں سے دونوں حماد یعنی حماد بن سلمہ اور حماد بن زید ہیں۔
- ثوری ، حمادین یعنی حماد بن سلمہ اور حماد بن زید اور یزید بن زریع کی عطا بن سائب سے روایت کا تذکرہ کرنے کے بعد کہا:
وَكَانَ سَمَاعُ الْأَرْبَعَةِ الَّذِينَ ذَكَرْنَا فِيهِ قَبْلَ ذَلِكَ [15]
اور وہ چاروں جن کا ہم نے اس میں تذکرہ کیا ، ان کا (عطا سے) سماع اس (اختلاط) سے پہلے ہے۔
فائدہ:
یوں تو فنِ حدیث میں تمامی محدثین کی گفتگو کی اپنی اہمیت ہے لیکن مفتیِ دعوتِ اسلامی پر امام طحاوی کی گفتگو کو ماننا دوگنا لازم ہے۔ کیونکہ ایک تو صاحبِ فن ہیں اور دوسرے حنفی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حنفیوں میں سے علمِ حدیث میں جو مقام اور حیثیت امام طحاوی کی ہے وہ کسی بھی دوسرے شخص کی نہیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا۔ اور دیگر ائمہ کی طرح یہ حنفی امام بھی حماد بن سلمہ کا عطا سے قبل از اختلاط سماع مانتے ہیں اور اس کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔
امام ابنِ حبان
امام ابنِ حبان متوفی ۳۵۴ھ نے اپنی صحیح میں متعدد بار حماد بن سلمہ کی عطا بن سائب سے روایت کو وارد کیا ہے۔ جس کا مطلب واضح ہے کہ امام ابنِ حبان کے نزدیک بھی حماد بن سلمہ کا عطا بن سائب سے سماع صحیح ہے۔ اور اگر امام ابنِ حبان کے نزدیک حماد کا عطا سے سماع بعد از اختلاط اور نا درست یا مشکوک ہوتا تو صحیح کے عنوان سے معنون کتاب میں ایسی مرویات کو وارد نہ کیا جاتا۔
- “ذِكْرُ تَعْجِيبِ اللهِ جَلَّ وَعَلَا مَلَائِكَتَهُ مِنَ الثَّائِرِ عَنْ فِرَاشِهِ وَأَهْلِهِ يُرِيدُ مُفَاجَأَةَ حَبِيبِهِ.” کے عنوان کے تحت کہا:
أَخبَرنا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْمُودِ بْنِ عَدِيٍّ بِنَسَا، حَدثنا حُمَيْدُ بْنُ زَنْجَوَيْهِ، حَدثنا رَوْحُ بْنُ أَسْلَمَ، حَدثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: “عَجِبَ رَبُّنَا مِنْ رَجُلَيْنِ الحديث [16]
- “ذِكْرُ الزَّجْرِ عَنْ أَنْ يَدْعُوَ الْمَرْءُ لِنَفْسِهِ بِالْخَيْرِ وَحْدَهُ دُونَ أَنْ يَقْرِنَ بِهِ غَيْرَهُ.” کے عنوان کے تحت کہا:
أَخبَرنا أَبُو خَلِيفَةَ، قَالَ: حَدثنا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَجُلاً قَالَ: اللهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلِمُحَمَّدٍ وَحْدَنَا الحديث [17]
یہ دو روایات ہم نے بطورِ مثال ذکر کی ہیں ورنہ صحیح ابنِ حبان میں لگ بھگ دس ایسی روایات موجود ہیں جو حماد بن سلمہ نے عطا بن سائب سے روایت کی ہیں۔
امام حمزہ کنانی
امام حمزہ کنانی متوفی ۳۵۷ھ کی بھی یہی رائے ہے کہ حماد بن سلمہ نے عطا سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔
التقیید والایضاح پھر الشذا الفیاح میں ہے:
وقال حمزة بن محمد الكناني في أماليه حماد بن سلمة قديم السماع من عطاء بن السائب [18]
حمزہ بن محمد کنانی نے اپنی امالی میں کہا: حماد بن سلمہ عطا بن سائب سے قدیم سماع والے ہیں۔
دار قطنی
ابو الحسن دار قطنی متوفی ۳۸۵ھ نے بھی اسی بات کی تصریح کی کہ: حماد بن سلمہ کا عطا سے سماع درست ہے۔
- سوالات السلمی للدارقطنی میں ہے:
وقال الشيخُ: دخل عطاءُ بنُ السائبِ البصرةَ، وجلس؛ فسماعُ أيوبَ وحمادِ بنِ سلمةَ في الرحلة الأولى صحيحٌ، والرحلةُ الثانيةُ فيه اختلاطٌ. [19]
شیخ نے کہا: عطا بن سائب بصرہ میں داخل ہوئے اور مجلس لگائی۔ پس ایوب اور حماد بن سلمہ کا آپ سے سماع پہلے سفر میں ہے ، درست ہے۔ اور (عطا بن سائب کے) دوسرے سفر میں اختلاط ہے۔
- اکمال تہذیب الکمال میں ہے:
وفي كتاب “الجرح والتعديل” عن الدارقطني: دخل عطاء البصرة دخلتين فسماع أيوب، وحماد بن سلمة في الدخلة الأولى صحيح. والدخلة الثانية فيه اختلاط. [20]
کتاب الجرح والتعدیل میں دار قطنی سے مروی ہے کہ عطا دو بار بصرہ آئے۔ پس ایوب اور حماد بن سلمہ کا سماع پہلے داخلے میں ہوا (جو) درست ہے۔ اور دوسرے داخلہ میں اختلاط ہے۔
حافظ ذہبی
حافظ شمس الدین ذہبی متوفی ۷۴۸ھ کے نزدیک بھی حماد بن سلمہ کا عطا سے سماع ان کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔
تاریخِ اسلام میں عطا بن سائب کے ترجمہ میں کہا:
روى عن: أبيه، وعبد الله بن أبي أوفى، وذر الهمداني، وأبي وائل، وسعيد بن جبير، وأبي عبد الرحمن السلمي، وطائفة سواهم. وعنه: سفيان، وشعبة، وحماد بن سلمة، وهؤلاء حديثهم عنه صحيح على ما ذكر بعض الحفاظ [21]
عطا نے اپنے والد ، عبد اللہ بن ابی اوفی ، ذر ہمدانی ، ابو وائل ، سعید بن جبیر ، ابو عبد الرحمن سلمی اور ان کے علاوہ ایک گروہ سے روایت لی۔ اور عطا سے سفیان ، شعبہ اور حماد بن سلمہ نے روایت لی۔ اور ان حضرات کی عطا سے روایت درست ہے جیسا کہ بعض حفاظ نے ذکر کیا۔
حافظ مغلطای
حافظ علاؤ الدین مغلطای حنفی متوفی ۷۶۲ھ کی سنن ابن ماجہ کی شرح میں گفتگو سے بھی یہی امر واضح ہوتا ہے کہ حافظ مغلطای کے نزدیک بھی رجحان اسی امر کو ہے کہ حماد بن سلمہ کا عطا بن سائب سے سماع عطا کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔ شرح سنن ابن ماجہ میں کہا:
وفيه نظر في موضعين: الأوّل: في قوله: إنّ حماد بن سلمة سمع منه بعد اختلاطه لما رويناه عن البغوي: أن ابن معين قال: كلّ شيء من حديث عطاء ضعيف إلا ما كان من حديث شعبة، وسفيان، وحماد بن سلمة. فهذا ابن معين نصّ على ابن سلمة أنه سمع منه قديما، فهو صحيح. [22]
اس میں دو جگہ اعتراض ہے۔ پہلا ان کے قول کہ حماد بن سلمہ نے عطا سے ان کے اختلاط کے بعد سنا۔ (اس اعتراض کی) وجہ وہ ہے جسے ہم نے بغوی سے روایت کیا کہ ابنِ معین نے کہا: عطا کی تمام حدیثیں ضعیف ہیں سوائے اس کے جو شعبہ ، سفیان اور حماد بن سلمہ کی روایت سے ہے۔ پس یہ ابنِ معین تصریح کر رہے ہیں کہ ابنِ سلمہ نے عطا سے پرانا سنا ہے پس وہ سماع صحیح ہے۔
ابنِ رجب حنبلی
حافظ ابنِ رجب حنبلی متوفی ۷۹۵ھ کی گفتگو سے بھی صاف طور پر واضح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک حماد بن سلمہ کا عطا سے سماع عطا کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔ شرح علل الترمذی میں عنوان باندھا:
“ذكر من سمع منه قبل أن يتغير“
یعنی: ان حضرات کا تذکرہ جنہوں نے عطا سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔
پھر سفیان ، شعبہ ، حماد بن زید کا تذکرہ کرنے کے بعد کہا:
ومنهم حماد بن سلمة [23]
یعنی حماد بن سلمہ بھی انہی میں سے ہے۔
پھر اپنے دعوی پر دلیل کے طور پر یحیی بن معین سے مختلف مرویات ذکر کیں۔ بعد ازاں اس باب میں اختلاف کی نشاندہی کرتے ہوئے یحیی بن سعید قطان کے قول کا تذکرہ کیا۔ لیکن جس عنوان کے تحت حماد بن سلمہ کو لے کر آئے اس عنوان سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ اختلاف تسلیم کرنے کے باوجود حافظ ابنِ رجب حنبلی کی نگاہ میں رجحان اسی امر کو ہے کہ حماد بن سلمہ کا عطا سے سماع ان کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔
ابنِ ملقن
محدث وفقیہ سراج الدین ابنِ ملقن متوفی ۸۰۴ھ کا موقف بھی یہی ہے کہ حماد بن سلمہ نے عطا کے اختلاط سے پہلے ان سے سماع کیا۔ لکھتے ہیں:
قلت: وَحَدِيث حَمَّاد بن سَلمَة، عَن عَطاء فِي المتابع الَّذِي ذكره الْحَاكِم إِسْنَاده جيد؛ فَإِنَّهُ سمع مِنْهُ قبل الِاخْتِلَاط كَمَا نَقله الْبَغَوِيّ فِي «الجعديات» عَن يَحْيَى بن معِين [24]
میں کہتا ہوں: حماد بن سلمہ کی عطا سے اس متابع میں روایت جسے حاکم نے ذکر کیا ، اس کی اسناد جید ہے۔ کیونکہ حماد نے عطا سے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔ جیسا کہ بغوی نے جعدیات میں یحیی بن معین سے اسے نقل کیا۔
حافظ عراقی کی مفصل گفتگو
وہ حضرات جنہوں ںے حماد بن سلمہ کے عطا سے سماع کے صحیح ہونے کی صراحت کی ، ان کے مزید تذکرہ سے پہلے میں حافظ زین الدین عراقی متوفی ۸۰۶ھ کی گفتگو کو اس مقام پہ ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ لکھتے ہیں:
واستثنى الجمهور أيضا رواية حماد بن سلمة عنه أيضا فممن قاله يحيى بن معين وأبو داود والطحاوي وحمزة الكتاني فروى ابن عدى في الكامل عن عبد الله ابن الدورقي عن يحيى بن معين قال حديث سفيان وشعبة وحماد بن سلمة عن عطاء ابن السائب مستقيم وهكذا روى عباس الدوري عن يحيى بن معين وكذلك ذكر أبو بكر بن أبى خيثمة عن ابن معين فصحح رواية حماد بن سلمة عن عطاء وسيأتي نقل كلام أبى داود في ذلك.
جمہور نے حماد بن سلمہ کی عطا سے روایت کو بھی (ضعف سے) مستثنی قرار دیا ہے۔ جن لوگوں نے یہ قول کیا ان میں یحیی بن معین ، ابو داود ، طحاوی اور حمزہ کنانی ہیں۔ پس ابن عدی نے کامل میں عبد اللہ دورقی سے اور وہ یحیی بن معین سے راوی ، کہا: سفیان ، شعبہ اور حماد بن سلمہ کی عطا بن سائب سے روایت درست ہے۔ اور یونہی عباس دوری نے یحیی بن معین سے روایت کیا۔ اور یونہی ابو بکر بن ابی خیثمہ نے ابنِ معین سے ذکر کیا۔ پس حماد بن سلمہ کی عطا سے روایت کو صحیح قرار دیا۔ اور ابو داود کی اس بارے میں گفتگو کو عنقریب نقل کیا جائے گا۔
پھر کہا:
وقال الطحاوي وإنما حديث عطاء الذي كان منه قبل تغيره يؤخذ من أربعة لا من سواهم وهم شعبة وسفيان الثوري وحماد بن سلمة وحماد بن زيد وقال حمزة بن محمد الكتاني في أماليه حماد بن سلمة قديم السماع من عطاء بن السائب [25]
اور طحاوی نے کہا: عطا کی وہ حدیث جو ان سے اختلاط سے پہلے تھیں وہ چار لوگوں سے لی جائیں گی نہ کہ ان کے علاوہ سے۔ اور وہ شعبہ ، سفیان ثوری ، حماد بن سلمہ اور حماد بن زید ہیں۔ اور حمزہ بن محمد کنانی نے اپنی امالی میں کہا: حماد بن سلمہ عطا بن سائب سے قدیم السماع ہیں۔
ابن الہمام
حنفیوں کے ہاں امام کمال الدین ابن الہمام متوفی ۸۶۱ھ کی کیا حیثیت ہے ، یہ کسی صاحبِ علم وخرد حنفی سے مخفی نہیں۔ امام کمال الدین ابن الہمام نے خاص اس روایت کو ذکر کیا جس کا تذکرہ کرنے کے بعد مفتیِ دعوتِ اسلامی کو دفاعِ بنی امیہ میں محدث بننے کا بھوت سوار ہوا۔ ابن الہمام نے مذکورہ بالا حدیث کو ذکر کرنے کے بعد کہا:
وَهَذَا أَيْضًا لَا يَنْزِلُ عَنْ دَرَجَةِ الْحُسْنِ، وَعَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ فِيهِ مَا تَقَدَّمَ فِي بَابِ صَلَاةِ الْكُسُوفِ، وَأَرْجُو أَنَّ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ مِمَّنْ أَخَذَ عَنْهُ قَبْلَ التَّغَيُّرِ، فَإِنَّ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ مِمَّنْ ذُكِرَ أَنَّهُ أَخَذَ عَنْهُ قَبْلَ ذَلِكَ، وَوَفَاتُهُ تَأَخَّرَتْ عَنْ وَفَاةِ عَطَاءِ بِنَحْوِ خَمْسِينَ سَنَةً، وَتُوُفِّيَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ قَبْلَ ابْنِ زَيْدٍ بِنَحْوِ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً فَيَكُونُ صَحِيحًا، وَعَلَى الْإِبْهَامِ لَا يَنْزِلُ عَنْ الْحُسْنِ.[26]
اور یہ بھی حسن کے درجہ سے نیچے نہیں۔ عطا بن سائب کے بارے میں وہ معاملہ ہے جو نمازِ کسوف کے باب میں گزر چکا اور میں امید کرتا ہوں کہ حماد بن سلمہ ان لوگوں سے ہیں جنہوں نے عطا سے قبل از تغیر سماع کیا۔ کیونکہ حماد بن زید ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں ذکر کیا گیا کہ انہوں نے عطا سے اختلاط سے پہلے اخذ کیا۔ اور حماد بن زید کی وفات عطا کی وفات سے لگ بھگ پچاس سال مؤخر ہے اور حماد بن سلمہ حماد بن زید سے تقریبا بارہ سال پہلے فوت ہوئے۔ پس یہ حدیث صحیح ہو گی۔ اور ابہام کی صورت میں بھی حسن سے نیچے نہیں۔
اس مقام پہ ابن الہمام کی گفتگو انتہائی قابلِ غور ہے۔ کیونکہ:
- یہ گفتگو نہ صرف حماد بن سلمہ کے عطا سے سماع کے بارے میں ہے بلکہ خاص اس روایت کے بارے میں ہے جس میں ہند بنت عتبہ کا حضرت حمزہ سلام اللہ تعالی علیہ کا کلیجہ چبانا مذکور ہوا۔
- نیز ابن الہمام نے حماد بن سلمہ کے عطا سے سماع کو دو حال پر محمول کیا:
۱: قبل از اختلاط۔ اسی کو راجح قرار دیا اور اس بنیاد پر اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔
۲: مبہم۔ اور اس بنیاد پر اس حدیث کو حسن قرار دیا۔
مطلب یہ نکلا کہ:
ہند بنت عتبہ کا حضرت حمزہ کلیجہ چبانے والی حدیث صحیح یا کم از کم حسن ہے اور یہ موقف کسی اور کا نہیں ، امام ابن الہمام کا ہے جنہیں حضرت فاضلِ بریلی فتاوی رضویہ میں جا بجا محقق علی الاطلاق کہتے دکھائی دیتے ہیں۔ لہذا اگر دعوتِ اسلامی والوں میں رضوی غیرت نام کی کوئی چیز ہو تو حضرت فاضلِ بریلی کے محقق علی الاطلاق کی تصحیح یا کم از کم تحسین کو قبول کر کے اپنے نام نہاد مفتی کو اس کے لائق لگام ڈالیں۔
فاضلِ بریلی
اربابِ دعوتِ اسلامی مسلمان ہونے پر اتنا فخر محسوس نہیں کرتے جتنا فخر رضوی ہونے پر محسوس کرتے ہیں اور اتنی اہمیت قرآن وحدیث کو نہیں دیتے جتنی اہمیت حضرت فاضلِ بریلی کی گفتگو کو دیتے ہیں۔ لیکن بے چاروں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہی دعوائے رضویت جابجا ان کے رستے کا روڑا اور گلے کی ہڈی بن جاتا ہے۔
سطورِ بالا میں ہم نے امام ابن الہمام کی جو گفتگو ذکر کی ہے ، حضرت فاضلِ بریلی نے نہ صرف اسے ذکر کیا بلکہ اس سے اپنے موقف کی تائید حاصل کی۔ لکھتے ہیں:
واختلاطہ لایضر عندنا مالم یثبت الاخذ بعدہ فقد ذکر المحقق علی الاطلاق فی فتح القدیر کتاب الصلاۃ باب الشھید حدیث احمد ثنا عفان بن مسلم ثنا حماد بن سلمۃ ثنا عطاء بن السائب ومعلوم ان عطاء بن السائب ممن اختلط فقال ارجوان حماد بن سلمۃ ممن اخذ منہ قبل التغیر ثم ذکر الدلیل علیہ ثم قال وعلی الابھام لاینزل علی الحسن
علاء کا مختلط ہونا ہمارے نزدیک مضر نہیں ہے جب تک یہ ثابت نہ ہوکہ یہ روایت اس سے اختلاط سے بعد لی گئی ہے۔ کیونکہ شیخ ابن ہمام نے فتح القدیر کی کتاب الصلٰوۃ باب الشہید میں احمد کی روایت ذکر کی ہے جس کا ایک راوی عطاء ابن سائب ہے۔ اور عطاء ابن سائب کا مختلط ہونا سب کو معلوم ہے، مگر ابن ہمام نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ حماد بن سلمہ نے یہ روایت عطاء کے اختلاط میں مبتلا ہونے سے پہلے اس سے اخذ کی ہوگی۔ پھر اس کی دلیل بیان کی اور کہا کہ اگر ابہام پایا بھی جائے تو حسن کے درجے سے کم نہیں ہے۔ (ت) [27]
اس گفتگو سے جہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:
حضرت فاضلِ بریلی کے نزدیک امام ابن الہمام کی مذکورہ بالا گفتگو لائقِ اعتماد ہونے کی وجہ سے فاضلِ بریلی کے نزدیک بھی ہند بنت عتبہ کا کارنامہِ جگر خواری بسند صحیح یا کم از کم بسند حسن ثابت ہے۔
وہیں فاضلِ بریلی کا یہ موقف بھی سامنے آتا ہے کہ:
وہ ثقہ جو اختلاط کا شکار ہوا ہو۔ اس سے لی جانے والی حدیث اس وقت نا قابلِ اعتماد ہو گی جب یہ ثابت ہو جائے کہ یہ روایت اس سے بعد از اختلاط لی گئی۔
گو حضرت فاضلِ بریلی کا یہ موقف محدثین کے موقف کے موافق ومطابق نہیں لیکن دعوتِ اسلامی والے جس پختگی کے ساتھ ایمان مجمل بالفاضل البریلوی اور ایمان مفصل بالفتاوی الرضویہ کے دعوے دار ہیں ، اس کے مطابق یہ موقف اربابِ دعوتِ اسلامی کے لیے حجتِ قطعیہ یقینیہ ہے۔
فاضلِ بریلی کے اس موقف کو سامنے رکھتے ہوئے مفتیِ دعوتِ اسلامی سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ:
کیا ہند بنت عتبہ کے کلیجہ چبانے والی روایت کے بارے میں ثابت ہے کہ حماد بن سلمہ نے اسے عطا سے بعد از اختلاط سنا؟
اگر ثابت ہے تو اس پہ کوئی دلیل پیش کرو۔ اور اگر ثابت نہیں اور یقینا ثابت نہیں تو پھر فاضلِ بریلی کے مطابق محض ابہام اس روایت کے لائقِ اعتماد ہونے میں مضر نہیں۔
جب فاضلِ بریلی کا موقف یہ بنتا ہے تو پھر تم کس منہ سے کہتے ہو کہ:
چونکہ حماد بن سلمہ کا عطا سے ہر دو حال میں سماع ہے لہذا یہ حدیث ضعیف ہے اور یہ واقعہ سرے سے ثابت ہی نہیں۔۔۔؟؟؟
مفتیِ دعوتِ اسلامی کی پیش کردہ عبارت
یہاں تک کی گفتگو سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ حماد بن سلمہ کے عطا بن سائب سے سماع کے بارے میں اس فن کے جلیل القدر اہلِ علم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ حماد بن سلمہ کا عطا سے سماع درست ہے اور عطا کے اختلاط وتغیر سے پہلے کا ہے۔
رہی بات حافظ ابنِ حجر کے ان جملوں کی جنہیں مفتیِ دعوتِ اسلامی نے جذبہِ دفاعِ بنی امیہ در حالتِ کفر ایشاں کے تحت ذکر کیا۔ تو ان کے بارے میں ہماری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ:
یہ جملے مفتیِ دعوتِ اسلامی نے یا تو محض کم علمی اور نادانی کی بنیاد پر ذکر کیے ہیں۔ یا جان بوجھ کر دھوکا دہی سے کام لیا ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ:
اہلِ علم جانتے ہیں کہ حافظ ابنِ حجر کا دورِ تصنیف وتالیف ایک طویل عرصہ پر محیط ہے اور اس دور میں حافظ ابنِ حجر کا موقف بہت سے امور کے بارے میں تبدیل بھی ہوا ہے۔ لہذا حافظ ابنِ حجر کے کسی ایک جملہ کو دیکھ کر ، ان کی دیگر تصانیف کے تتبع وتلاش کے بغیر حتمی طور پر یہ رائے دے دینا کہ حافظ ابنِ حجر کی حتمی رائے یہ ہے ، یہ سراسر نا انصافی ہے۔ جیسے بہت سے ائمہ مثلا امام ابو حنیفہ نے بعض اوقات کوئی قول کیا لیکن بعد ازاں اس کے مقابل قول کو اختیار کیا جسے قولِ اول سے رجوع کی دلیل قرار دیا جاتا ہے۔ اور صرف امام ابو حنیفہ ہی نہیں ، ان گنت اربابِ علم کی کلام میں ایسی لا تعداد مثالیں موجود ہیں کہ پہلے انہوں نے کوئی ایک بات کی اور بعد ازاں اس سے رجوع کر لیا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ خاص اس مسئلے میں امام ابنِ حجر عسقلانی کا ہے۔
حافظ ابنِ حجر کے چار رویے
حافظ ابنِ حجر کی گفتگو کو بسط وتفصیل سے دیکھا جائے تو آپ کی گفتگو میں حماد بن سلمہ کے عطا سے سماع کے بارے میں چار مختلف رویے دکھائی دیتے ہیں۔
پہلا رویہ
اس مسئلہ کو مختلف فیہا ماننا۔
حافظ ابنِ حجر نے ہدی الساری میں جس اسلوب کو اختیار کیا ہے اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ حافظ اس مسئلہ کو مختلف فیہا مانتے ہیں اور ھدی الساری میں نہ تو کسی ایک رائے کو ترجیح دی اور نہ ہی محاکمہ کی جانب گئے ہیں۔
ہدی الساری کی گفتگو ملاحظہ ہو:
وتحصل لي من مجموع كلام الأئمة أن رواية شعبة، وسفيان الثوري، وزهير بن معاوية، وزائدة، وأيوب، وحماد بن زيد عنه قبل الاختلاط، وأن جميع من روى عنه غير هؤلاء فحديثه ضعيف؛ لأنه بعد اختلاطه، إلا حماد بن سلمة، فاختلف قولهم فيه [28]
ائمہ کے کلام کے مجموعہ سے میرے لیے یہ بات حاصل ہوئی کہ شعبہ ، سفیان ثوری ، زہیر ، زائدہ ، ایوب اور حماد بن زید کی عطا سے روایت اختلاط سے پہلے کی ہے اور تمامی وہ حضرات جنہوں نے عطا سے روایت کیا اور وہ ان کے علاوہ ہیں ، ان کی روایت ضعیف ہے کیونکہ وہ عطا کے اختلاط کے بعد کی ہے۔ سوائے حماد بن سلمہ کے۔ کیونکہ ان کے بارے میں ائمہ کا قول مختلف ہے۔
اس گفتگو میں حافظ ابنِ حجر نے محض اختلاف کا ذکر کیا اور اسی پہ بات کو مکمل کیا۔
دوسرا رویہ
اب آتے ہیں دوسرے رویے کی جانب اور یہی وہ رویہ ہے جس کو ذکر کر کے مفتیِ دعوتِ اسلامی نے دھوکا دہی کی کوشش کی ہے۔ اس رویے کا خلاصہ یہ ہے کہ حافظ ابنِ حجر نے اختلاف کے تذکرہ کے بعد محاکمہ بھی کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
قلت. فيحصل لنا من مجموع كلامهم أن سفيان الثوري وشعبة وزهير او زائدة وحماد بن زيد وأيوب عنه صحيح ومن عداهم يتوقف فيه إلا حماد بن سلمة فاختلف قولهم
میں کہتا ہوں: ہمارے لیے ان حضرات کے کلام کے مجموعہ سے یہ بات حاصل ہوئی کہ: سفیان ثوری ، شعبہ ، زہیر ، زائدہ ، حماد بن زید اور ایوب کا سماع عطا سے درست ہے اور ان کے علاوہ میں توقف کیا جائے گا۔ سوائے حماد بن سلمہ کے۔ (ان کے بارے میں) ائمہ کی گفتگو میں اختلاف ہے۔
اتنی گفتگو تو وہی ہے جو ہدی الساری کے حوالے سے نقل کی گئی۔ سوائے اس فرق کے کہ ہدی الساری میں باقی حضرات کی روایت کو ضعیف جبکہ یہاں متوقف فیہ ٹھہرایا۔ یہاں مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا:
والظاهر إنه سمع منه مرتين مرة مع أيوب كما يومي إليه كلام الدارقطني ومرة بعد ذلك لما دخل إليهم البصرة وسمع منه مع جرير وذويه والله أعلم [29]
اور ظاہر یہ ہے کہ حماد بن سلمہ نے عطا سے دو بار سنا ہے۔ ایک بار ایوب کے ساتھ جیسا کہ اس کی جانب دار قطنی کی گفتگو اشارہ کر رہی ہے۔ اور دوسری بار اس کے بعد جب عطا ان حضرات کے پاس بصرہ آئے اور ان سے جریر اور ان جیسوں نے سماع کیا۔ اور اللہ سبحانہ وتعالی بہتر جاننے والا ہے۔
یہ وہ موقف ہے جسے ذکر کر کے مفتیِ دعوتِ اسلامی نے بنو امیہ کی نمک حلالی کی بھرپور کوشش کی۔ لیکن یہ دھوکا بھی دیا کہ ابنِ حجر کے باقی رویوں کا سرے سے تذکرہ ہی نہ کیا۔
تیسرا رویہ
ابنِ حجر کا حماد بن سلمہ کے عطا سے سماع کے بارے میں تیسرا رویہ جو ابنِ حجر کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے ، وہ ہےان حضرات کی رائے کے رجحان کی جانب اشارہ جو حماد بن سلمہ کا عطا سے سماع قبل از اختلاط مانتے ہیں۔
ملاحظہ ہو ، فتح الباری میں ایک مقام پہ کہا:
وَالزِّيَادَةُ الْمَذْكُورَةُ مِنْ رِوَايَةِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَطَاءٍ، وَقَدْ سُمِعَ مِنْهُ قَبْلَ الِاخْتِلَاطِ فِي قَوْلِ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ، وَأَبِي دَاوُدَ، وَالطَّحَاوِيِّ وَغَيْرِهِمْ. [30]
اور مذکورہ اضافہ حماد بن سلمہ کی عطا سے روایت سے ہے اور حماد بن سلمہ نے عطا سے اختلاط سے پہلے سنا۔ یحیی بن معین ، ابو داود اور طحاوی وغیرہ کے قول کے مطابق۔
حافظ ابنِ حجر کے اس اسلوب کو ملاحظہ کیجیے۔ اس گفتگو سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حافظِ ابنِ حجر اس مسئلہ میں ابنِ معین ، ابو داود اور امام طحاوی جیسے حضرات کی رائے کے رجحان کی جانب اشارہ کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس مقام پہ دوسرے حضرات کی رائے کا سرے سے تذکرہ ہی نہیں کیا۔
چوتھا رویہ
اس مسئلہ میں حافظ ابنِ حجر کا چوتھا رویہ جو در حقیقت حافظ ابنِ حجر کا حقیقی موقف ہے ، وہ یہ ہے کہ آپ نے صاف صاف کہا کہ:
حماد بن سلمہ کا عطا بن سائب سے سماع عطا کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔
ملاحظہ ہو۔ فتح الباری میں کہا:
وَحَمَّادٌ مِمَّنْ سَمِعَ مِنْ عَطَاءٍ قَبْلَ الِاخْتِلَاطِ [31]
اور حماد ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے عطا سے اختلاط سے پہلے سنا۔
قابلِ غور
حافظ ابنِ حجر کی یہ گفتگو قابلِ غور ہے۔ کیونکہ پہلے تینوں رویوں میں حافظ ابنِ حجر نے دیگر حضرات کی آراء کا تذکرہ کیا جبکہ اس مقام پہ نہ تو کسی اختلاف کا تذکرہ کیا اور نہ ہی اس رائے کو کسی دوسرے کے حوالے سے بیان کیا۔ اس مقام پہ بالکل دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ:
وَحَمَّادٌ مِمَّنْ سَمِعَ مِنْ عَطَاءٍ قَبْلَ الِاخْتِلَاطِ
یعنی حماد ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے عطا سے اختلاط سے پہلے سنا۔
جملوں کے فرق اور کلام کے اسلوب کی اہمیت کو جاننے والے حضرات کے سامنے زیادہ وضاحت کی حاجت نہیں۔ وہ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ حافظ ابنِ حجر کی اس گفتگو اور دیگر مقامات پہ کی گئی گفتگو کے بیچ کیا فرق ہے۔
نیز:
یہی وہ رائے ہے جو حافظ ابن حجر کی گفتگو میں جا بجا ملتی ہے۔
- تغلیق التعلیق میں کہا:
وَحَدِيث حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَطَاءِ بن السَّائِب قبل الِاخْتِلَاط [32]
اور حماد بن سلمہ کی عطا بن سائب سے حدیث اختلاط سے پہلے کی ہے۔
- التلخیص الحبیر میں کہا:
وإسناده صحيح؛ فإنه من رواية عطاء بن السائب، وقد سمع منه حماد بن سلمة قبل الاختلاط [33]
اس حدیث کی اسناد صحیح ہے کیونکہ یہ عطا بن سائب کی روایت سے ہے اور حماد بن سلمہ نے عطا سے اختلاط سے پہلے سنا۔
- تعجیل المنفعۃ میں کہا:
وَحَمَّاد بن سَلمَة سمع من عَطاء بن السَّائِب قبل اخْتِلَاطه فروايته قَوِيَّة [34]
اور حماد بن سلمہ نے عطا بن سائب سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔ لہذا ان کی روایت قوی ہے۔
- نتائج الافکار میں کہا:
وعطاء بن السائب ممن اختلط وسماع محمد بن فضيل منه بعد اختلاطه وكذا أكثر الرواة عنه وحماد بن سلمة ممن سمع منه قبل اختلاطه.[35]
اور عطا بن سائب ان لوگوں میں سے ہیں جن کو اختلاط واقع ہوا اور محمد بن فضیل کا عطا سے سماع عطا کے اختلاط کے بعد کا ہے اور یونہی عطا سے اکثر راویوں کا۔ اور حماد بن سلمہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے عطا سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔
اس مقام پہ بھی حافظ ابنِ حجر نے کسی اختلاف کے تذکرہ کے بغیر دو ٹوک الفاظ میں حماد کا سماع عطا کے اختلاط سے پہلے ذکر کیا ہے۔
- نتائج الافکار ہی میں دوسرے مقام پہ کہا:
ولأنه من رواية حماد بن سلمة عن عطاء وسماعه منه قبل الاختلاط.[36]
اور اس لیے کہ یہ حماد بن سلمہ کی عطا سے روایت سے ہے اور حماد کا عطا سے سماع اختلاط سے پہلے ہے۔
- اسی میں مزید کہا:
وهذا أقوى طرق هذا الحديث لأن حمادا سمع من عطاء قبل اختلاطه.[37]
اور یہ اس حدیث کے طرق میں سے سب سے زیادہ قوی ہے۔ کیونکہ حماد نے عطا سے ان کے اختلاط سے پہلے سماع کیا۔
تنبیہ
نتائج الافکار کے بارے میں اہلِ علم نے تصریح کی ہے کہ اس کا املاء منگل ۱۵ ذو القعدہ ۸۵۲ھ تک جاری رہا۔ یعنی حافظ کی بیماری کی ابتدا تک۔ لہذا نتائج الافکار میں درج موقف کو حافظ ابنِ حجر کا آخری اور مرجوع الیہ موقف کہا جائے تو قطعا بے جا نہ ہو گا۔
حاصلِ گفتگو
مفتیِ دعوتِ اسلامی نے حافظ ابنِ حجر کے جس موقف کو ویڈیو کے ذریعے پھیلا کر حماد بن سلمہ کی عطا بن سائب سے روایت کو نا قابلِ اعتماد ظاہر کرنے کی کوشش کی ، نہ تو حافظ ابنِ حجر کا تنہا وہ ایک ہی موقف ہے اور نہ ہی وہ موقف آخری اور حتمی موقف ہے۔ حافظ ابنِ حجر کا آخری اور حتمی موقف وہی ہے جو جمہور کا ہے۔ یعنی :
حماد بن سلمہ کے عطا بن سائب سے سماع کا قدیم ، صحیح اور مستقیم یعنی قبل از اختلاط وتغیر ہونا۔
یہی موقف حافظ ابنِ حجر کی متعدد کتابوں میں ملتا ہے اور یہی موقف نتائج الافکار میں درج ہے جس کا املا حافظ ابنِ حجر اپنے آخری ایام تک فرماتے رہے۔ لہذا اس کے علاوہ حافظ ابنِ حجر کی گفتگو سے جو بھی واضح ہے اسے حافظ ابنِ حجر کا حتمی اور آخری موقف نہیں کہا جا سکتا۔
بر سبیلِ تنزل
اور بالفرض اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ مفتیِ دعوتِ اسلامی نے حافظ ابنِ حجر کا جو موقف بیان کیا ، وہی موقف حافظ ابنِ حجر کا آخری اور حتمی ہے تو جب بھی یہ گفتگو ہمارے لیے مضر نہیں۔
کیونکہ امام ابن معین ، امام ابو داود ، امام یعقوب بن سفیان الفسوی ، امام ابن حبان ، ابن جارود ، حمزہ کنانی ، دار قطنی ، طحاوی ، حافظ ذہبی ، حافظ مغلطای جیسی شخصیات کے مقابل بعض حضرات کا تفرد لائقِ اعتماد وقابلِ التفات ہرگز نہیں۔
اشتباہ کی بنیاد
نیز: حماد بن سلمہ کے بارے میں اشتباہ کی بنیاد پر توجہ کی جائے تو اس کی بنیاد یحیی بن سعید القطان کے ایک قول کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
عقیلی متوفی ۳۲۲ھ نے علی بن مدینی سے نقل کیا۔ کہا:
قَالَ عَلِيٌّ: قُلْتُ لِيَحْيَى: وَكَانَ أَبُو عَوَانَةَ حَمَلَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِطَ؟ فَقَالَ: كَانَ لَا يَفْصِلُ هَذَا مِنْ هَذَا، وَكَذَلِكَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ [38]
علی ابن المدینی نے کہا: میں نے یحیی سے کہا: ابو عوانہ نے عطا بن سائب سے اختلاط سے پہلے حدیث لی؟ تو یحیی بن سعید نے کہا: وہ پہلے اور بعد والی روایات میں فرق نہیں کر پاتے تھے اور یونہی حماد بن سلمہ۔
بعض حضرات کی سبقتِ فہمی
یہ وہ جملہ ہے جس نے حماد بن سلمہ کے بارے میں اشتباہ پیدا کیا۔ بعض حضرات نے اسے عقیلی کی اپنی رائے بھی کہا ہے لیکن یہ سب نقل در نقل کا نتیجہ ہے۔ عقیلی کی اپنی گفتگو کو ملاحظہ کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ اس مقام پہ عقیلی نے اپنی رائے بیان نہیں کی بلکہ یحیی بن سعید کی رائے کا تذکرہ کیا ہے۔
یحیی بن سعید کا دوسرا موقف
اب اگر ایک جانب جمہور کو رکھا جائے جن میں جلیل القدر ائمہ کے نام آتے ہیں اور ان کے مقابل یحیی بن سعید کے تفرد کو لایا جائے تو اربابِ علم جانتے ہیں کہ جمہور کے مقابل یحیی بن سعید کی رائے کسی صورت لائقِ التفات نہیں۔
بایں ہمہ:
جیسے ہم نے حافظ ابنِ حجر کے بارے میں بتایا کہ آپ کا اس رائے پر قرار نہیں تھا جس میں انہوں نے حماد بن سلمہ کا عطا سے بعد از اختلاط سماع ذکر کیا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ یحیی بن سعید قطان کا بھی معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ یحیی بن سعید کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو ہر کس وناکس سے روایت نہ لیتے تھے۔ حتی کہ جب ان کی رائے حماد بن سلمہ کے بارے میں وہ تھی جو سطورِ بالا میں مذکور ہوئی تو اس وقت یحیی بن سعید عطا کی روایت حماد بن سلمہ سے نہ لیا کرتے بلکہ صرف شعبہ اور سفیان سے لیتے تھے۔
جیسا کہ الضعفاء الکبیر ہی کے اندر مذکورہ بالا گفتگو کے بعد متصلا مذکور ہے:
وَكَانَ يَحْيَى لَا يَرْوِي حَدِيثَ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ إِلَّا عَنْ شُعْبَةَ وَسُفْيَانَ [39]
اور یحیی عطا بن سائب کی حدیث کو صرف شعبہ اور سفیان سے روایت کیا کرتے تھے۔
یہاں تو یہ بات مذکور ہے لیکن جب ہم کتبِ روایات کا استقراء کرتے ہیں تو معاملہ اس سے قدرے مختلف دکھائی دیتا ہے۔
حلیۃ الاولیاء میں حضرت امام علی علیہ السلام کی ایک روایت کو ذکر کرنے کے بعد امام ابو نعیم نے کہا:
هذا حديث غريب تفرد به حماد عن عطاء ورواه يحيى بن سعيد القطان عن حماد نحوه.[40]
یہ حدیث غریب ہے۔ اس کو عطا سے روایت کرنے میں حماد کا تفرد ہے۔ اور یحیی بن سعید قطان نے اس حدیث کو حماد سے مذکورہ روایت کے ہم معنی روایت کیا ہے۔
ایک جانب اہلِ علم کا کہنا کہ یحیی بن سعید قطان عطا کی روایت کو صرف سفیان اور شعبہ سے لیا کرتے تھے۔ اور دوسری جانب یحیی بن سعید کی حماد بن سلمہ کے ذریعے عطا بن سائب سے روایت کا پایا جانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس مسئلہ میں یحیی بن سعید قطان کا محض ایک موقف نہیں رہا۔ ممکن ہے کہ یحیی بن سعید قطان پہلے یہ سمجھتے ہوں کہ حماد بن سلمہ نے عطا بن سائب سے دو بار سماع کیا ہے۔ قبل از اختلاط اور بعد از اختلاط۔ جب تک یہ سمجھتے رہے اس وقت تک عطا کی روایت صرف سفیان اور شعبہ کے واسطے سے لیتے رہے۔ اور بعد میں آپ پر واضح ہو گیا کہ حماد بن سلمہ کا سماع عطا سے صرف قبل از اختلاط ہی کے دور کا ہے لہذا اب عطا بن سائب کی روایات کو حماد بن سلمہ کے واسطے سے لینا بھی شروع کر دیا ، جیسا کہ حلیۃ الاولیاء کی مذکورہ بالا روایت سے ظاہر ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ معاملہ اس کے بر عکس ہو۔
نتیجہِ کلام
بہر صورت: حماد بن سلمہ کے عطا بن سائب سے سماع کے بارے میں جس قول سے اختلاف شروع ہوا وہ قول یحیی بن سعید ہی کا ہے۔ بعد میں اگر کسی نے اس کا قول کیا تو وہ اسی قول پر اعتماد کی بنیاد پر کیا۔ اور ہم واضح کر چکے کہ یحیی بن سعید قطان کا یہ قول آپ کا قولِ واحد نہیں بلکہ بعد از استقراء وتتبع اس باب میں آپ کی دو آراء ظاہر ہوتی ہیں۔ اور ظاہر یہی ہے کہ امام ابو نعیم کی حلیۃ سے مستفاد رائے ہی پر یحیی بن سعید قطان کی رائے کا قرار ہوا ہے۔
ہم پہلے گزارش کر چکے کہ اگر یہ رائے یحیی بن سعید کی حتمی رائے ہوتی جب بھی اس مقام پہ مضر نہ تھی۔ چہ جائیکہ جناب یحیی بن سعید کا اس رائے پر قرار بھی ثابت نہیں۔ پھر اس رائے کو لے کر حماد بن سلمہ کے بارے میں جلیل القدر ائمہ جرح وتعدیل کی آراء کو کیونکر پسِ پشت ڈالا جا سکتا ہے؟
اور اگر ہم اس تفصیل میں نہ جائیں جب بھی اربابِ دعوتِ اسلامی کے لیے کسی صورت حلال نہیں کہ حماد بن سلمہ کی عطا بن سائب سے روایت کو قبول نہ کریں۔ کیونکہ ان کے امام وپیشوا حضرت فاضلِ بریلی امام ابن الہمام کی رائے کا تذکرہ کرتے وقت اس پہ مہرِ قبول وتسلیم ثبت کر چکے۔
تنبیہ:
سطورِ بالا میں درج امور میں سے اہم ترین نکات قبلہ الاستاذ المحدث وجاہت حسین الحنفی ادام اللہ ظلہ کے افادات سے چنیدہ ہیں۔
[1] (الطبقات الکبری لابن سعد ج ۳ ص ۱۱ ، ۱۲ ، مصنف ابن ابی شیبہ ج ۷ ص ۳۷۱ ، مسند احمد بن حنبل ج ۷ ص ۴۱۸ ، ۴۱۹ (۴۴۱۴) ، تاریخِ دمشق ج ۷۰ ص ۱۷۵)
[2] (تہذیب التہذیب ج ۷ ص ۲۰۷)
[3] (تاریخ ابنِ معین بروایتِ دوری ج ۳ ص ۳۰۹)
[4] (الکامل فی ضعفاء الرجال ج ۷ ص ۷۲)
[5] (سوالات ابن الجنید ص ۴۷۸)
[6] (مسند ابن الجعد ص ۱۳۲)
[7] (التمہید لابن عبد البر ج ۱ ص ۲۷۷)
[8] (شرح علل الترمذی ج ۲ ص ۷۳۵)
[9] (مسائل الامام احمد بروایت امام ابو داود سجستانی ص ۳۸۳)
[10] (المعرفۃ والتاریخ ج ۳ ص ۸۴)
[11] (تہذیب التہذیب ج ۷ ص ۲۰۷)
[12] (تہذیب التہذیب ج ۷ ص ۲۰۷)
[13] (شرح مشکل الآثار ج ۱ ص ۱۴۹)
[14] (شرح مشکل الآثار ج ۱۰ ص ۱۷۵)
[15] (شرح مشکل الآثار ج ۱۵ ص ۲۲۵)
[16] (صحیح ابن حبان ج ۱ ص ۲۳۰ (۱۹۴))
[17] (صحیح ابن حبان ج ۳ ص ۴۲۶ (۲۶۹۱))
[18] (التقیید والایضاح شرح مقدمۃ ابن الصلاح للعراقی ص ۴۴۳ ، الشذا الفیاح من علوم ابن الصلاح للابناسی ج ۲ ص ۷۴۹ ، الکواکب النیرات لابن الکیال ص ۳۲۶)
[19] (سوالات السلمی للدار قطنی ص ۳۶۶)
[20] (اکمال تہذیب الکمال ج ۵ ص ۲۹۸)
[21] (تاریخِ اسلام ج ۳ ص ۶۹۸)
[22] (شرح سنن ابن ماجہ لمغلطای ج ۳ ص ۱۰)
[23] (شرح علل الترمذی ج ۲ ص ۷۳۵)
[24] (البدر المنیر فی تخریج الاحادیث والآثار الواقعۃ فی الشرح الکبیر ج ۲ ص ۴۹۴)
[25] (التقیید والایضاح شرح مقدمۃ ابن الصلاح ص ۴۴۳)
[26] (فتح القدیر ج ۲ ص ۱۴۵)
[27] (فتاوی رضویہ ج ۵ ص ۲۹۱ ، ۲۹۲)
[28] (ہدی الساری ص ۴۲۵)
[29] (تہذیب التہذیب ج ۷ ص ۲۰۷)
[30] (فتح الباری ج ۳ ص ۸۵)
[31] (فتح الباری ج ۳ ص ۴۶۲)
[32] (تغلیق التعلیق ج ۳ ص ۴۷۰)
[33] (التلخیص الحبیر ج ۱ ص ۳۸۲)
[34] (تعجیل المنفعۃ ج ۲ ص ۵۷۱)
[35] (نتائج الأفكار في تخريج أحاديث الأذكار 1/416)
[36] (نتائج الأفكار في تخريج أحاديث الأذكار 2/288)
[37] (نتائج الأفكار في تخريج أحاديث الأذكار 4/295)
[38] (الضعفاء الکبیر للعقیلی ج ۳ ص ۳۹۹)
[39] (الضعفاء الکبیر للعقیلی ج ۳ ص ۴۰۰)
[40] (حلیۃ الاولیاء ج ۴ ص ۲۰۰)
