سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت اور مثلہ
سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد ان کے بدن اقدس کا مثلہ کیا جانا اور آپ کے جگر کو نکال کر چبانے کا تذکرہ مشہور و معروف ہے اور سینکڑوں علماء امت نے اسے ذکر فرمایا ہے۔اپنے اور غیر سب نے اپنی کتب میں بالتفصیل اسے بیان کیا۔ مگر دور حاضر میں کچھ لوگوں نے اپنی روباہ بازی سے اس کا سراسر انکار کر دیا۔اگرچہ ان کی ماضی میں اشاعت شدہ کتب ہی ان کے دعوی کے بطلان کیلئے کافی تھیں۔
چنانچہ اس سلسلہ میں فقیر نے ایک سو حوالہ جات پہلے جمع کئے تاکہ حق بات قارئین پر روز روشن کی طرح واضح ہو جائے۔اب مزید چالیس حولہ جات اردو کتب سے ان قارئین کی نذر کرتا ہوں جو عربی کتب سے بلا واسطہ استفادہ نہیں کر سکتے۔
مالک کریم سے دعا ہے کہ وہ حق پر استقامت عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین
معارج النبوت
(۱)مولانا ملا معین واعظ الکاشفی الہروی ”معارج النبوت“میں وحشی کا بیان لکھتے ہیں۔ وحشی نے کہا:
میں نے اپنے ضربہ کو اٹھا لیا،ان کا پیٹ چیرا،جگر کو باہر نکالا اور ہندہ کو لا کر دیا اور کہا کہ یہ حمزہ رضی اللہ عنہ کا جگر ہے،تیرے باپ کا قاتل،اس نے مجھ سے لے لیا اوردانتوں سے چبایا اور پھر اسے پھینک دیا۔اپنے کپڑے زیور اور عمدہ لباس مجھے دیئے اور وعدہ کیا کہ جب میں مکہ جاؤں گی،دس سرخ دینار تجھے انعام دوں گی۔[1]
حاشیہ سیرت مصطفی
(۲)سیرت مصطفی للمغلطائی کے حاشیہ میں ”ڈاکٹر مفتی محمد عمران انور نظامی“لکھتے ہیں:
وحشی نے آپ کو شہید کر کے آپ کا پیٹ چاک کیا اور آپ کا کلیجہ نکالا اور ہند کے پاس لے آیا جو ھند نے چبانا چاہا لیکن نگل نہ سکی،ھند نے اپنے کپڑے اور زیور اتار کر وحشی کو بطورانعام دیئے اور وعدہ کیا کہ مکہ جا کروہ اسے مزید دس دینار بطور انعام دے گی۔[2]
مدارج النبوت
(۳)حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے تذکرہ میں وحشی کی گفتگو ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
پھر میں نے ان کا پیٹ چاک کر دیا۔اور ان کا جگر نکال لیا۔ہند کے پاس لے گیا۔اور کہا کہ یہ تمہارے باپ کے قاتل حمزہ کا جگر ہے۔اس نے مجھ سے لے کر اسے چبایا اور پھر پھینک دیا۔[3]
شرف النبی ﷺ
(۴)شرف النبیﷺ میں امام علامہ ابوسعید عبدالملک بن عثمان نیشاپوری(المتوفٰی۷۰۴ھ)لکھتے ہیں:
ہندہ نے میدان جنگ میں حضرت حمزہ کی نعش کو پڑا دیکھا تو آپ کا جگر نکال لیا اور چبالیا۔ناک کان اور دوسرے اعضاء کاٹ کر ہار بنا لیا۔[4]
سیرتِ مصطفیﷺ
(۵)ابوعاصم غلام حسین ماتریدی لکھتے ہیں:
یہ وہی ہندہ ہیں جنہوں نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کرایا تھا۔اور ان کا سینہ چاک کر کے ان کا کلیجہ چبایا تھا۔[5]
تاریخ یعقوبی
(۶)احمد بن ابی یعقوب بن جعفر بن وھب بن واضح ”تاریخ یعقوبی“ میں لکھتے ہیں:
آپ کو جبیربن مطعم کے غلام وحشی نے نیزہ مارا اور آپ گر پڑے اور ہند بنت عتبہ بن ربیعہ نے آپ کا مثلہ کیا اور آپ کا جگر چیرا اور اس کا ایک ٹکڑا لے کر اسے چبایا اور آپ کی ناک کاٹی۔[6]
مرتضی احمد میکش
(۷)مرتضی احمد خان میکش لکھتے ہیں :
ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی لاش کا سینہ چیر کر کلیجہ نکالا اور اسے چبا کر کھانے لگی۔لیکن نگل نہ سکی۔[7]
شاہ معین ندوی
(۸)شاہ معین الدین احمد ندوی لکھتے ہیں:
اختتام جنگ کے بعدقریش کی خواتین نے مقتولین بدر کے انتقام کے جوش میں مسلمان شہداء کے ناک کاٹ دیئے،ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے ان کو پھولوں کی طرح کاہار بنا کر پہنا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ نکال کر چبا گئی۔[8]
سوامی لکشمن
(۹)سوامی لکشمن پرشاد اپنی کتاب ”عرب کا چاند“میں لکھتاہے:
اس۔۔۔۔نے اس فرزند توحید کے کان کاٹے۔ناک کاٹی۔لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور پیٹ چاک کر کے جگر نکالا اور دانتوں میں لے چبانا شروع کردیااور چبا چبا کر تھوکتی رہی۔[9]
رسول عربی ﷺ
(۱۰)رسول عربی ﷺ میں ہے:
ہندہ بڑی کینہ جو عورت تھی،باپ اور بھائی کے قتل کا انتقام اس کے دل میں برابر موجود تھا،ایسی شتر کینہ تھی،کہ جب تک اس نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش کو ڈھونڈ کر ان کا پیٹ چاک کر کے اور ان کا کلیجہ نکال کر اپنے دانتوں سے چبا نہ لیا،تب تک اس کا کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا۔[10]
حیات سرور کائنات
(۱۱)حیات سرور کائنات محمدﷺمیں ”مارٹن لنگس“(ابوبکر سراج الدین)لکھتا ہے:
وحشی حمزہ کی لاش کے پاس لوٹ کر گیا۔اس نے ان کا پیٹ چاک کیا۔ان کا جگر کاٹ کر نکالا اور اس کو ہند کے پاس لے آیا اور بولا”مجھے کیا ملے گا تمہارے باپ کے قاتل کے عوض؟ہند کا جواب تھا ”لوٹ کے مال میں میرا سارا حصہ“وحشی نے کہا: یہ ہے حمزہ کا جگر،ہند نے وحشی سے اس کو لے لیا۔ایک ٹکڑا دانت سے کاٹا۔اس کو چبایااور قسم پوری کرنے کیلئے ایک لقمہ نگل گئی۔باقی کو تھوک دیا۔[11]
ضیاء النبیﷺ
(۱۲)پیر کرم شاہ صاحب الازہری لکھتے ہیں :
وحشی نے آپ کو شہید کرنے کے بعد آپ کا پیٹ چاک کیا،آپ کا کلیجہ نکالا اور ہند کے پاس لے آیا۔اور کہا کہ یہ حمزہ کا کلیجہ ہے۔اس نے اسے چبایا۔اس نے نگلنا چاہالیکن تھوک دیا شاید نگل نہ سکی۔ہند نے اپنے کپڑے اور زیور اتار کر وحشی کو بطور انعام دیئے اور وعدہ کیا کہ مکہ جاکر اسے مزید دس دینار انعام دے گی۔[12]
تواریخ حبیب الہ
(۱۳)مفتی عنایت احمد کوروی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:
آپ کے قتل کی خبر پا کر ہندہ بہت خوش ہوئی۔اور نعش کے پاس پہنچ کر مثلہ کیا یعنی ناک کان کاٹ لیے اور اتنے ہی پر بس نہیں بلکہ آپ کا شکم چاک کر کے کلیجہ نکالا اور چبایا۔[13]
غزوہ احد کی فتح
(۱۴)کرنل محمد انور مدنی سیدناحمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کا واقعہ بزبان وحشی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(وحشی نے کہا)میں ان کے پاس پہنچا اور اپنے خنجر سے پیٹ کو چیر کر ان کا جگر نکالا۔اور اسے ہند بنت عتبہ کے پاس لے آیا اور کہا یہ ہے تیرے باپ کے قاتل حمزہ کا جگر!اس نے مجھ سے لے لیا اور منہ میں چبا کر تھوک دیا۔[14]
رسول کریم ﷺ میدانِ جنگ میں
(۱۵)مولانا نور بخش توکلی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:
اثنائے جنگ میں مشرکین کی عورتیں شہدائے عظام کو مثلہ بنانے میں مشغول تھیں۔عتبہ کی بیٹی ہند نے اپنے پاؤں کے کڑے،بالیاں اور ہار حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے قاتل وحشی کو دے دیئے اور خود شہداء کو کانوں اور ناکوں سے اپنے واسطے کڑے بالیاں اور ہار بنائے اور حضرت حمزہ کے جگر کو پھاڑ کر چبایا،نگل نہ سکی تو پھینک دیا۔[15]
مردانِ عرب
(۱۶)علامہ عبدالستار ہمدانی اپنی کتاب”مردان ِعرب“میں لکھتے ہیں:
حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کرنے کے بعد وحشی غلام، ہندبنت عتبہ بن ربیعہ(زوجہ ابو سفیان بن حرب)کے پاس آیا۔لیکن ہند کے پاس جاتے وقت وحشی نے خنجر سے حضرت حمزہ کا شکم اطہر کو چاک کر کے آپ کا جگر (کلیجا)نکالا اور اپنے ساتھ ہند بنت عتبہ کے پاس لایا۔
وحشی نے آکر ہند بنت عتبہ کے سامنے اس کے باپ کا روزبدر حضرت حمزہ کے ہاتھ سے قتل ہونے کا صدمہ یاد دلایا اور پوچھا کہ اگر میں تیرے باپ کے قاتل کو مار ڈالوں تو مجھے کیا انعام دو گی۔ہند بنت عتبہ نے کہا کہ اس وقت میرے بدن پر جو لباس اور زیورات ہیں وہ تیرے ہیں۔تب وحشی نے حضرت حمزہ کا جگر دیتے ہوئے کہا کہ لے! یہ تیرے باپ کے قاتل حمزہ کا جگرہے۔ہندبنت عتبہ نے حضرت حمزہ کے جگر کو وحشی سے لیااور منہ میں ڈال کر چبایا اور پھر تھوک دیا۔[16]
شرح صحیح مسلم
(۱۷):مفسر قرآن ،شارح بخاری و مسلم مولانا غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قریش نے انتقام بدر کے جوش میں مسلمانوں کی لا شوں سے بھی بدلہ لیاان کے ناک ،کان کاٹ لیے،ہند نے ان بریدہ اعضاء کا ہار بنا کر اپنے گلے میں ڈالا،حضرت حمزہ کی لاش پر گئی اور ان کا پیٹ چاک کر کے ان کا کلیجہ نکالا اور چبا گئی لیکن گلے سے نہ اتر سکا اس لئے اگل دینا پڑا۔[17]
تبیان القرآن
(۱۸): مفسر قرآن ،شارح بخاری و مسلم مولانا غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ ’’تبیان القرآن ‘‘میں لکھتے ہیں:
قریش کی عورتوں نے جوش انتقام میں مسلمانوں کی لاشوں کو بھی نہیں چھوڑا،ان کا مثلہ کیایعنی ان کے چہرے سے ناک اور کان کاٹ لئے،ھند نے ان کٹے ہوئے اعضاء کا ہار بنایا اور اپنے گلے میں ڈالاحضرت سیدنا حمزہ کی لاش پر گئی اور ان کا پیٹ چاک کر کے کلیجہ نکالا اور کچا چبا گئی لیکن گلے سے نہ اتر سکا اس لئے اگلنا پڑا۔[18]
علامہ اشرف سیالوی
(۱۹): امام المناظرین،سند المدرسین،فاتح دیوبندیت و نجدیت شیخ الحدیث والتفسیر مولانا محمد اشرف سیالوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
اس(یعنی وحشی)نے آپ کا سینہ اقدس چاک کرکے دل جگر نکال کر اس (یعنی ہند)کے حوالے کیا جس کو چبا چبا کر تھوکتی رہی۔[19]
علامہ فیض احمد اویسی
(۲۰): علامہ فیض احمد اویسی صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ وحشی کا بیان ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
میں ان کےپاس پہنچا اور اور اپنے خنجر سے پیٹ کو چیر کر ان کا جگر نکالا اور اسے ہندہ بنت عتبہ کے پاس لے آیا اور کہا’’یہ ہے تیرے باپ کے قاتل حمزہ کا جگر‘‘اس نے مجھ سے لیا اور منہ میں چبا کر تھوک دیا۔
اسی صفحہ پر لکھتے ہیں:
اسی بناء پر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے جگر چبانے والی ہندہ کو ’’اکلۃ الاکباد‘‘(جگر کھانے والی) کہا جاتا ہے۔[20]
علامہ شرف قادری
(۲۱):علامہ عبدالحکیم شرف قادری لکھتے ہیں:
ان کی ایک عورت نے آپ کا جگر نکال کر منہ میں ڈالا اور اسے چبایا ،لیکن اسے حلق سے نیچے نہ اتار سکی،ناچار سے تھوک دیا۔[21]
علامہ عبد المصطفی اعظمی
(۲۲):عبدالمصطفی اعظمی صاحب لکھتے ہیں:
کفارقریش کی عورتوں نے جنگ بدر کا بدلہ لینے کیلئے جوش میں شہداء کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی لاشوں پر جاکران کے کان،ناک وغیرہ کاٹ کر صورتیں بگاڑ دیں اور ابو سفیان کی بیوی ہند نے تو اس بے دردی کا مظاہرہ کیا کہ ان اعضاء کا ہار بنا کر اپنے گلے میں ڈالا۔ہند حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی مقدس لاش کو تلاش کرتے پھر رہی تھی کیونکہ حضرت حمزہ ہی نے جنگ بدر کے دن ہند کے باپ عتبہ کو قتل کیا تھا۔جب اس بے درد نے حضرت حمزہ کی لاش کو پالیا تو خنجر سے ان کا پیٹ پھاڑ کر کلیجہ نکالا اور اس کو چبا گئی لیکن حلق سے نہ اتر سکا اس لئے اگل دیا تاریخوں میں ہند کا لقب جو جگر خورہے وہ اسی واقعہ کی بنا ہے۔[22]
مفتی قاسم عطاری
(۲۳): مفتی قاسم عطاری صاحب لکھتے ہیں:
حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا دانتوں سے کلیجہ چبانے والی ہند کو معاف کردیا۔[23]
سید منظور شاہ صاحب
(۲۴):ابوالنصر سید منظور احمد شاہ صاحب لکھتے ہیں:
ہند نے حضرت کا پیٹ چاک کیا ۔سینہ چیرا۔دل وجگر کے ٹکڑے کر کے گلے کا ہار بنایا۔خوشی کی۔وحشی کو انعام میں زیور دیا۔[24]
پیر غلام دستگیر ہاشمی
(۲۵): پیر غلام دستگیر ہاشمی لکھتے ہیں:
ہندہ بھی تھی جس نے احد میں شہید کا کلیجہ نکال کر چبالیا تھا اور شہداء کے ناک کان کاٹ کر اور ان کو تاگے میں پرو کر ہار بنایا تھا۔[25]
محسنِ انسانیت
(۲۶): نعیم صدیقی اپنی کتاب’’محسن انسانیت‘‘میں لکھتا ہے:
ہند ’’زوجہ ابوسفیان‘‘جو زنانے دستے کی سربراہ تھی۔اس نے شان درندگی کا افسوس ناک نمونہ پیش کیا۔اور حضرت حمزہ کا چہرہ بگاڑا اور پیٹ چاک کر کے ان کا کلیجہ نکال کر چبایا۔[26]
قاری احمد علی
(۲۷): حکیم قاری احمد علی پیلی بھیتی لکھتے ہیں:
وہی ہند جس نے جنگ احد میں حضرت امیر حمزہ کا کلیجہ چبایا اور ناک کان کاٹ کر گلے میں ڈالے تھے۔[27]
سیارہ ڈائجسٹ
(۲۸):سیارہ ڈائجسٹ میں ہے:
ان معافی پانے والوں میں حضرت حمزہ کا قاتل وحشی،اور حضرت حمزہ کا جگر چبانے والی ابوسفیان کی بیوی ہندہ جگر خور اور ابو جہل کا بیٹا عکرمہ شامل تھے۔[28]
سیرت نمبر
(۲۹): ایک دوسری جگہ اسی سیارہ ڈائجسٹ کے عکس سیرت نمبر میں ہے:
ابھی سورج پوری طرح ڈوبا نہیں تھا کہ ابو سفیان کی بیوی ہندہ میدان جنگ میں چل نکلی اور پیغمبر اسلام کے چچا حضرت حمزہ کے جنازے کی جستجو کرنے لگی۔جنازہ ڈھونڈ نکالنے کے بعد اس نے ایک تیز دھار چاقو کی مدد سے حضرت حمزہ کا پیٹ اور سینہ چاک کیااور ان کا جگرنکال کر چبانا شروع کردیا۔اسی بنا پر وہ ۔۔۔۔۔۔۔عورت اسلامی تاریخ میں ہندہ جگرخور‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ہندہ نے حضرت حمزہ کا کلیجہ چبایا صرف چبایا ہی نہیں بلکہ اس کا کچھ حصہ نگل گئی۔[29]
فائدہ:رومانیہ کے ایک دانشور کونسٹن دیرژل نے ایک کتاب’’محمد ایسے پیغمبر ہیں جنہیں پہچاننے کی از سر نو کوشش ہونی چاہئے‘‘لکھی۔اس کی اسی کتاب کو ’’سیارہ ڈائجسٹ کے عکس سیرت نمبر ‘‘کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر مصطفی سباعی
(۳۰): غیر مقلدڈاکٹر مصطفی سباعی لکھتے ہیں:
ابو سفیان کی بیوی ہند نے آپ رضی اللہ عنہ کا مثلہ کر ڈالا اور آپ کا کلیجہ چبا گئی،پھر تلخی محسوس کر کے پھینک دیا۔[30]
عابد عمران
(۳۱): محمد عابد عمران انجم مدنی لکھتے ہیں:
وحشی نے آپ کو شہید کرنے کے بعد آپ کا پیٹ چاک کیا آپ کا کلیجہ نکالا اور ہند کے پاس لے آیااور کہا کہ یہ حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ ہے۔ اس نے اسے چبایا اور نگلنا چاہا لیکن نگل نہ سکی اور اگل دیا۔[31]
عنایت گوندل
(۳۲): محمد عنایت گوندل لکھتا ہے:
بعد ازاں ہندہ قہقہ لگاتی آپ کی لاش پر آئی اس نے خنجر لیا۔کان کاٹے ناک کاٹی،آنکھیں نکالیں،ہاتھوں کی انگلیاں کاٹیں۔ان کا ہاربنا کر گلے میں ڈالا۔اور اپنی انتقام کی آ گ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔پیٹ چاک کیا کلیجہ نکالا اس کو چبایا اور تھوک دیا۔[32]
فتاوی دار العلوم دیوبند
(۳۳): فتاوی دارالعلوم دیوبندمیں بھی اس قصہ کو صحیح اور درست کہا گیا ہے۔
سوال نمبر: 600105:حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبانے والی روایت كیسی ہے؟
سوال:ما صحة قصة أکل ہند بنت عتبة لکبد حمزة ؟
جواب نمبر: صحابہ کے احوال میں ”اسد الغابة“ معتبر کتاب مانی جاتی ہے۔ اس میں ہند بنت عتبہ کے حالات میں لکھا ہوا ہے۔
فلما قُتِل حمزة مَثَّلَتْ بہ وشَقَّت بطنہ واستخرجت کبدہ فلاکتہا فلم تطق اساغتہا۔فبلغ ذلک النبی ﷺ فقال لو أساغتہا لم تمسہا النار (اسد الغابة، ص: ۲۸۱، حرف الھاء)۔ اسی طرح حضرت ”حمزہ“ کے حالات میں صفحہ: ۶۸/ پر لکھا ہے’’وبقرت ہندبطن حمزۃ فاخرجت کبدہ فجعلت تلوکہا فلم تسغہا فلفظتہا فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ”لو دخل بطنہا لم تمسہا النار“۔ (ص: ۶۸ ۶باب الحاء)
اسد العابة کی دونوں روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہند کا حضرت حمزہ کے جگر کا نکالنا اور اسے چبانا یہ واقعہ صحیح ہے۔[33]
ماہنامہ دختران اسلام
(۳۴): ماہنامہ دختران اسلام میں ہے:
جنگ بدر میں جن قریش مکہ کو حضرت حمزہؓ نے قتل کیا تھا ان کے گھروں کی عورتوں کو وہ انتقام کی آگ میں جل رہی تھیں ان میں سے ایک ابوسفیان کی بیوی ہندہ بھی تھی جس کے باپ اور جبیر بن مطعم کے چچا بھی قتل ہوئے تھے۔ جنہیں حضرت حمزہؓ نے واصل جہنم کیا تھا۔ وہ اس چیز کا بدلہ چاہتے تھے اس بنا پر ہندہ اور جبیر بن مطعم نے وحشی کو دولت اور آزادی کا لالچ دے کر قتل پر آمادہ کروالیا جس وقت حضرت حمزہؓ کی تلوار سے سباع بن عبدالعزی کا سر کاٹا اس وقت وحشی نے چھپ کر زہر میں بجھے ہوئے نیزے سے آپ پر پیچھے سے وار کیا جس کی وجہ سے آپ کی شہادت ہوگئی۔ ہندہ کو پتہ چلا تو اس نے آپ کا جگر نکال کر چبایا لیکن نگل نہ سکی پھر آپ کے جسم مبارک کی بے حرمتی کی۔ آپ کے اعضاء کو کاٹ کر گلے کا ہار بناکر پہنا جب رسول اللہ ﷺ کو آپ کی شہادت کا پتہ چلا آپ بے حد رنجیدہ ہوئے۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے یہاں تک کہ ہچکی بندھ گئی۔[34]
تفسیر معالم العرفان
(۳۵): صوفی عبد الحمید سواتی تفسیر معالم العرفان میں لکھتے ہیں:
جنگ بدر میں حضرت حمزہ نے ہندہ کے بیٹے کو قتل کیا تھا ، اسے آپ سے سخت عداوت تھی۔ چنانچہ آپ کی شہادت پر ہندہ نے حضرتِ حمزہ کا کلیجہ چبایا۔[35]
مفتی محمود دیوبندی
(۳۶): مفتی محمود دیوبندی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
جب حضرت حمزہ شہید کر دئیے گئے تو ہند نے آپ کا کلیجہ اور جگر نکال ک چبایا اور بعد میں آپ کا مثلہ کیا۔ [36]
سیرت النبی ۔ قدم بہ قدم
(۳۷): مولوی عبد اللہ فارانی سیرت النبی ۔ قدم بہ قدم میں لکھتے ہیں:
ہندہ (حضرت ابو سفیان کی اہلیہ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئی تھیں۔) نے ان کا کلیجہ نکال کر چبایا مگر اس کو نگل نہ سکی۔[37]
تفسیرِ بغوی مترجم ۔ پہلا حوالہ
(۳۸): تفسیرِ بغوی کے ترجمہ میں ہے:
اور ہند بنت عتبہ نے حضرت حمزہ (رض) کا کلیجہ نکال کر چبایا لیکن اس کو نگل نہ سکی تو پھر باہر تھوک دیا۔[38]
تفسیرِ بغوی مترجم ۔ دوسرا حوالہ
(۳۹): اسی میں ہے:
یہاں تک کہ ہندہ نے انہیں ہار بنا کر وحشی کو دئیے اور حضرت حمزہ (رض) کا کلیجہ نکال کر چبایا مگر نگل نہ سکی تھوک دیا۔[39]
تفسیرِ بغوی مترجم ۔ تیسرا حوالہ
(۴۰): اسی میں ہے:
ابو سفیان کی بیوی ہندہ بنت عتبہ جس نے رسول اللہ (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت حمزہ کا جگر چبایا تھا۔[40]
دین کے شیر کی معرکہ سازیاں
تیر کی بارشیں پھر فرس تازیاں
صف اعدا پہ وہ تیغ اندازیاں
ان کے آگے وہ حمزہ کی جاں بازیاں
شیر غُرّان سطوت پہ لاکھوں سلام
جاں نثارانِ مولا کی جاں بازیاں
اہل بطحا و طیبہ کی جاں بازیاں
حق پسند اہل تقوی کی جاں بازیاں
ن کے آگے وہ حمزہ کی جاں بازیاں
شیر غُرّان سطوت پہ لاکھوں سلام
اللہ تعالی سید الشہداء رضی اللہ تعالی کے صدقے ہمیں بھی دین کی سرفرازی کو اپنا مقصد بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔اہل حق کے ساتھ استقامت عطا فرماکر اپنے دین متین کی خدمت کی توفیق عنایت فرمائے۔
اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتبعہ
اللھم ارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ
غبار راہ طیبہ:
مفتی محمد شہزاد نقشبندی
دارالقلم اسلامک ریسرچ سنٹر حافظ آباد
29 شوال المکرم1446ھ
28اپریل2025
نوٹ: اگر آپ کے پاس اس واقعے کے مزید حوالے ہیں، تو ہمیں کمنٹس میں ضرور بتائیں!
[1] معارج النبوت ج۳ص۱۷۳۔مطبوعہ مکتبہ نبویہ۔لاہور
[2] سیرت مصطفی للمغلطائی ص۳۱۸۔مطبوعہ پروگریسوبکس
[3] مدارج النبوت:ج ۲ص۱۷۳۔مطبوعہ:مکتبہ اسلامیہ،لاہور
[4] شرف النبی:ص۳۲۳۔مترجم پیرزادہ علامہ اقبال احمد فاروقی۔مطبوعہ:ملک اینڈ کمپنی رحمان مارکیٹ اردو بازار لاہور۔
[5] سیرت مصطفی ص:۴۶۴۔ناشر:حاجی شمشیر احمد صاحب،برنلے،یوکے۔
[6] تاریخ الیعقوبی:ج۲ص۷۶۔مطبوعہ:نفیس اکیڈمی،اردوبازار،کراچی۔
[7] تاریخ اسلام:حصہ اول،ص:۹۵۔مطبوعہ مکتبہ اعلی حضرت۔لاہور
[8] تاریخ اسلام: حصہ اول ص۶۴۔مطبوعہ:نعمانی کتب خانہ لاہور
[9] عرب کا چاند:ص۲۸۸۔مطبوعہ:مکتبہ تعمیر انسانیت،لاہور
[10] رسول عربی ﷺ۔مطبوعہ: سیرت اکیڈمی شاہ عالم مارکیٹ،لاہور
[11] حیات سرور کائنات محمدﷺ ص:۴۱۸
[12] ضیاء النبی ج۱ ص۴۹۰۔مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز
[13] تواریخ حبیب الٰہ ص:۶۴۔مطبوعہ قادری رضوی کتب خانہ۔لاہور
[14] غزوہ احد کی فتح:ص۱۶۴
[15] رسول کریم ﷺ میدان جنگ میں:ص۱۱۲۔مطبوعہ صفہ پبلی کیشنز،لاہور۔
[16] مردان عرب: حصہ اول ص۱۲۸۔مطبوعہ مرکز اہل سنت برکات رضا۔گجرات،انڈیا۔
[17] شرح صحیح مسلم :ج۵ص۵۵۵۔مطبوعہ فرید بک سٹال لاہور۔
[18] تبیان القرآن:ج۲ص۳۳۵۔ مطبوعہ فرید بک سٹال لاہور۔
[19] سیرت و فضائل سیدناامیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ ص:۴۸۔مطبوعہ:جامعہ غوثیہ مہریہ منیرالاسلام
[20] سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ ص:۱۸۔مطبوعہ:تحریک اتحاد اہلسنت پاکستان (کراچی)
[21] سید الشہداء (حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ) ص:۲۱۔مطبوعہ رضا اکیڈمی(انڈیا)
[22] سیرت مصطفی ﷺص:۲۷۸۔مطبوعہ دعوت اسلامی
[23] صراط الجنان ج۳ص:۵۰۵۔مطبوعہ دعوت اسلامی
[24] مدینۃ الرسول :ص۳۰۲۔مکتبہ نظامیہ،جامعہ فریدیہ ساہیوال۔
[25] تاریخ مکہ معظمہ :ص۱۰۴۔مطبوعہ پروگریسو بکس لاہور۔
[26] محسن انسانیت ص:۴۹۱ ۔مطبوعہ اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ۔لاہور
[27] رحمت دو عالم ص۷۶۔مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز ناشران و تاجران کتب۔کراچی
[28] سیارہ ڈائجسٹ ص۳۰۰۔جلد۲۰۔شمارہ ۵۔نومبر۱۹۷۳
[29] سیارہ ڈائجسٹ کے عکس سیرت نمبر ص:۳۱۲
[30] سیرت نبوی ص۹۵:مطبوعہ توحید پبلیکیشنز بنگلور(انڈیا)
[31] تذکرہ سیدالشہداء سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ ص:۵۰۔مطبوعہ کرمانوالہ بک شاپ ۔
[32] ماہنامہ ضیائے حرم ص۷۵۔شعبان المعظم۱۴۱۹ھ،دسمبر ۱۹۹۸
[33] Fatwa : 78-58/B=02/1442دارالافتاء دارالعلوم دیوبند
[34] دختران اسلام جو ن ۲۰۲۳ء
[35] تفسیر معالم العرفان زیرِ آیت ۰۰۳:۱۴۴
[36] تفسیر محمود زیرِ آیت ۰۳۹:۰۵۳
[37] سیرت النبی ۔ قدم بہ قدم جلد دوم ص ۱۲۶
[38] تفسیر بغوی مترجم زیرِ آیت ۰۱۶:۱۲۶
[39] تفسیر بغوی مترجم زیرِ آیت ۰۰۳:۱۴۴
[40] تفسیر بغوی مترجم زیرِ آیت ۱۱۰:۰۰۲
