عناصرِ خطاب:
- ابتدائی باتیں
- تاریخِ جنت البقیع
- جنت البقیع کا انتخاب
- رسول اللہ ﷺ کی بقیع شریف تشریف آوری
- جنت البقیع کی فضیلت
- کتبِ سابقہ میں جنت البقیع کا تذکرہ
- بقیعِ پاک اور نجدی مظالم
الْحَمْدُ لِله مُظْهِرِ مَعَانِيْ آيَاتِهِ، فِيْ بَيَانِ بَدِيْعِ مَصْنُوْعَاتِهِ، وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ، نَبِيِّهِ الْمُخْتَارِ مِنْ مَوْجُوْدَاتِهِ، وَعَلَى آلِهِ الْمُسَارِعِيْنَ إِلَى مَرْضَاتِهِ
ابتدائی باتیں:
یہ ماہِ شوال المکرم ہے اور عنقریب اس ماہ کی ۸ تاریخ آنے والی ہے۔ ۸ شوال المکرم ۱۳۴۴ھ تاریخِ انسانی کا وہ سیاہ دن ہے جس دن اسلام کے نام نہاد دعوے داروں نے رسول اللہ ﷺ کی لختِ جگر سیدہِ کائنات علیہا السلام کی قبرِ انور کو شہید کیا۔ اس روز حضرت سیدنا ابراہیم بن رسول اللہ ﷺ کی قبرِ پاک کو شہید کیا گیا۔ اس روز امام حسن علیہ السلام ، امام زین العابدین ، امام محمد باقر ، امام جعفر صادق ، حضرت عثمانِ غنی ، ازواجِ مطہرات سمیت بقیعِ اقدس میں موجود صحابہ اور اہلِ بیت کے عظیم افراد کی مبارک قبروں کو بدعت اور کفر وشرک کے سلسلے کی کڑیاں قرار دیتے ہوئے تہس نہس کر دیا گیا۔
برادرانِ اسلام!
دنیا میں کوئی ایک بھی ایسی قوم نہیں ملے گی جو اپنے بڑوں کے آثار ونشانات کو مٹا ڈالے۔ مسلمان ہو یا کافر ، ہندو ہو یا سکھ ، پڑھا لکھا شخص ہو یا ان پڑھ۔ دنیا کا ہر شخص اپنے بڑوں کی یادگاروں کو سنبھالتا اور سینے سے لگا کر رکھتا ہے۔ اس آسمان کے نیچے صرف ایک ہی ایسی قوم نمودار ہوئی جن ظالموں نے اپنے بڑوں کے نشانات کو مٹانا ہی اسلام کی اصل خدمت قرار دیا۔ اور بڑے بھی کوئی معمولی بڑے نہیں ، یہ وہ بڑے ہیں جن کے خون کی آبیاری سے شجرِ اسلام نے نشو ونما پائی۔ اسلام کا درخت اگر آج بھی ہرا بھرا ہے تو اس کی جڑوں میں ان بڑوں کا خون اور پسینہ شامل ہیں جن کے مزاراتِ مقدسہ کو نجدی ظالموں نے تہس نہس کر دیا اور زمین بوس کر دیا۔
تاریخِ جنت البقیع:
برادرانِ اسلام!
جنت البقیع وہ عظیم قبرستان ہے جس کی تاریخ اسلامی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ تشریف لاتے ہی مسجدِ نبوی شریف کی تعمیر کا آغاز کر دیا تھا۔ لیکن ابھی مسجدِ نبوی شریف کی تعمیر مکمل نہ ہوئی تھی کہ حضرت کلثوم بن ہدم اور ان کے بعد حضرت اسعد بن زرارہ کا وصال ہو گیا اور ان کو جنت البقیع شریف میں دفن کیا گیا۔
(الطبقات الکبری لابن سعد 3/565 ، البدر المنیر فی تخریج الاحادیث والآثار الواقعۃ فی الشرح الکبیر 5/326 ، کنوز الذہب فی تاریخ حلب 2/75)
یہی وہ لمحہ ہے جہاں سے جنت البقیع شریف کی تاریخ کا آغاز ہوا۔ یعنی جنت البقیع شریف کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی پرانی مسجدِ نبوی شریف کی تاریخ ہے۔ کیونکہ حضرت کلثوم بن ہدم اور حضرت اسعد بن زرارہ کا وصال مسجدِ نبوی شریف کی تکمیل سے پہلے ہوا اور یہ حضرات پہلے وہ انصار صحابہ ہیں جنہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
جنت البقیع کا انتخاب:
جنت البقیع وہ عظیم قبرستان ہے جس کا انتخاب خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا اور اللہ سبحانہ وتعالی کے حکم سے فرمایا تھا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ:
رسول اللہ ﷺ مدینہ مشرفہ تشریف لانے کے بعد اپنے صحابہ کے لیے قبرستان کی بابت فکر مند تھے اور جگہ تلاش فرمایا کرتے۔ اس غرض سے آپ ﷺ نے مدینہ مشرفہ کے اطراف وجوانب کا جائزہ بھی لیا تاکہ کسی جگہ کا انتخاب کیا جا سکے۔ پھر آپ ﷺ نے بقیعِ غرقد کا انتخاب فرمانے کے بعد فرمایا:
أُمِرْتُ بهذا الموضع
مجھے اس جگہ کا حکم دیا گیا ہے۔
(الطبقات الکبری لابن سعد 3/368 ، المستدرک علی الصحیحین 3/209)
برادرانِ اسلام!
اہلِ بیت اور صحابہ کی قبروں کے لیے جس قبرستان کا انتخاب سید الانبیاء فرمائیں اور خاص اپنے خالق ومالک کے حکم سے فرمائیں ، کیا اس مقام کی عزت وعظمت ، اس مقام کی رفعت وبلندی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے؟
رسول اللہ ﷺ کی بقیع شریف تشریف آوری:
اور بات فقط اتنی ہی نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بحکمِ الہی اس جگہ کو اہلِ بیت اور صحابہ کی قبروں کے لیے منتخب کرنے کے بعد چھوڑ دیا ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے بحکمِ الہی اس بقعہِ زمین کو اہلِ بیت اور صحابہ کی قبروں کے لیے منتخب کیا۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالی کے حکم ہی سے لگاتار اس قطعہِ اراضی پہ تشریف لاتے رہے ، یہاں کے مدفونین کو سلام پیش کرتے اور ان کے لیے دعائیں فرماتے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا رسول اللہ ﷺ کا معمول بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
كُلَّمَا كَانَ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ فَيَقُولُ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ، غَدًا مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ
رسول اللہ ﷺ کی جانب سے جب بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی باری کی رات ہوتی تو رسول اللہ ﷺ رات کے آخری حصے میں بقیع شریف کی جانب تشریف لے جاتے اور فرماتے:
السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ، غَدًا مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ
اے ایماندار قوم کے گھر کے باسیو! تم پہ سلامتی ہو۔ جو تم سے وعدہ کیا جاتا رہا وہ تمہیں آن پہنچا ، کل کے لیے مہلت دئیے گئے ہو۔ اور بے شک ہم اگر اللہ سبحانہ وتعالی نے چاہا تو تمہیں آن پہنچنے والے ہیں۔
پھر فرماتے:
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ
اے اللہ! بقیعِ غرقد والوں کی بخشش فرما۔
(صحیح مسلم ۹۷۴)
ام المؤمنین حضرت عائشہ ہی سے دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أُمِرْتُ أَنْ آتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَأُسَلِّمَ عَلَيْهِمْ
مجھے حکم دیا گیا کہ میں بقیع والوں کے پاس آؤں اور ان پہ سلام بھیجوں۔
(مسند اسحاق بن راہویہ ۱۰۲۸)
یونہی رسول اللہ ﷺ کے خادم ابو مویہبہ کہتے ہیں ایک رات رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:
يَا أَبَا مُوَيْهِبَةَ، إِنِّي قَدْ أُمِرْتُ أَنْ أَسْتَغْفِرَ لِأَهْلِ الْبَقِيعِ، فَانْطَلِقْ مَعِي
اے ابو مویہبہ! مجھے حکم ہوا ہے کہ میں بقیع والوں کے لیے استغفار کروں۔ تو تم میرے ساتھ چلو۔
پس حضرت ابو مویہبہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلے اور رسول اللہ ﷺ بقیع غرقد تشریف لائے اور ان پر سلام پیش کیا۔
(مسند احمد ۱۵۹۹۷)
میرے مسلمان بھائیو!
رسول اللہ ﷺ کا بار بار بقیعِ پاک آنا۔ بلکہ خالقِ کائنات کا اپنے حبیب پاک ﷺ کو بار بار بقیعِ پاک بھیجنا ، امتِ مسلمہ کو یہ سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ:
یہ قبرستان کوئی معمولی قبرستان نہیں۔ یہاں کے مدفونین کوئی عام مدفونین نہیں۔
اگر یہ قبرستان معمولی قبرستان اور یہاں آرام فرما ہستیاں معمولی لوگ ہوتے تو اللہ سبحانہ وتعالی سارے نبیوں کے سردار ﷺ کو بار بار اس قبرستان نہ بھیجتا۔
اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک کلمہ گو کے لیے بقیعِ پاک کی عظمت ورفعت سمجھنے کے لیے صرف اتنی بات ہی کافی ہے کہ خالقِ کائنات نے سارے نبیوں کے سردار ﷺ کو خود بقیعِ پاک بھیجا اور یہاں کے مدفونین پہ سلام پیش کرنے کا حکم فرمایا۔
اگر دل میں ایمان ہو اور رسول اللہ ﷺ کی عظمت پر یقین ہو تو یہ بات معمولی نہیں۔ لیکن جن لوگوں کے مقدر پہ ازلی سیاہی چھائی ہوئی ہو ، ان کے لیے بھی قرآنِ پاک نے بتا دیا:
خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
ان کے دلوں اور کانوں پہ اللہ سبحانہ وتعالی نے مہر لگا دی۔ ان کی نگاہوں پہ پردہ۔ اور ان کے لیے بڑا عذاب۔
جنت البقیع کی فضیلت:
رسول اللہ ﷺ کے وصال کے تیرہ سو سال بعد اسلام کے نام نہاد دعوے داروں نے جس بقیعِ پاک کی بے حرمتی کی۔ یہاں کی قبروں کو مسمار اور مزارات کو منہدم کیا۔ یہ وہ بقیعِ پاک ہے جس کی عظمت اور فضیلت کا بیان خود رسول اللہ ﷺ نے اپنی زبانِ اقدس سے فرمایا۔
ام قیس رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بقیعِ اقدس کے بارے میں فرمایا:
يُبْعَثُ مِنْ هَذِهِ الْمَقْبَرَةِ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ
اس قبرستان سے ستر ہزار ایسے لوگ اٹھائے جائیں گے جو بغیر کسی حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔
(تاریخِ مدینہ لابن شبہ 1/92)
ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں:
يُبْعَثُ مِنْهَا سَبْعُونَ أَلْفًا، وُجُوهُهُمْ كَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ
اس قبرستان سے ستر ہزار لوگ اٹھائے جائیں گے جن کے چہرے چودہویں کے چاند کی طرح ہوں گے۔ وہ جنت میں بلا حساب داخل ہو جائیں گے۔
(مسند ابی داود طیالسی ۱۷۴۰)
ابو کعب قرظی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ دُفِنَ فِيْ مَقْبَرَتِنَا هٰذِه شَفَعْنَا – أَوْ شَهِدْنَا – لَه.
جو شخص ہمارے اس قبرستان میں دفن ہو ہم اس کی شفاعت کریں گے۔ یا (فرمایا کہ) ہم اس کے لیے گواہی دیں گے۔
(تاریخ المدینہ لابن شبہ 1/97)
برادرانِ اسلام!
رسول اللہ ﷺ کے ان مبارک فرمانوں کے ہوتے ہوئے جب بقیعِ پاک کی موجودہ حالت پر نظر پڑتی ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ جس بقیعِ اقدس کی فضیلت اور جس میں دفن ہونے والوں کی عظمت کا بیان خود رسول اللہ ﷺ فرمائیں ، کیا اس قوم سے بڑا بدبخت بھی کوئی ہو سکتا ہے جو اسی بقیعِ پاک کو زمین بوس کرنے کو اسلام کی خدمت اور ایمان کا تقاضا قرار دے؟
ابو عبد الملک سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَقْبَرَتَانِ يُضِيَانِ لِأَهْلِ السَّمَاءِ كَمَا تُضِئُ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لِأَهْلِ الدُّنْيَا
دو قبرستان ایسے ہیں جو آسمان والوں کے لیے ایسے چمکتے ہیں جیسے دنیا والوں کے لیے سورج اور چاند چمکتے ہیں۔
وہ دو قبرستان کونسے ہیں؟
فرمایا:
مَقْبَرَتُنَا بِالْبَقِيْعِ بَقِيْعِ الْمَدِيْنَةِ، وَمَقْبَرَةٌ بِعَسْقَلَانَ
ایک قبرستان بقیعِ پاک کا قبرستان ہے۔ اور دوسرا عسقلان کا ایک قبرستان ہے۔
(الدرۃ الثمینۃ فی اخبار المدینۃ ص ۱۶۴)
کتبِ سابقہ میں جنت البقیع کا تذکرہ:
برادرانِ اسلام!
جنت البقیع کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جیسے اللہ سبحانہ وتعالی نے کتبِ سابقہ میں رسول اللہ ﷺ کا تذکرہ فرمایا تھا۔ آپ ﷺ کی نشانیاں اور آپ ﷺ کی عظمت کا بیان تورات وانجیل میں کر دیا تھا۔ یونہی جنت البقیع شریف کا ذکر بھی پچھلی آسمانی کتابوں میں فرما دیا گیا ہے۔
کعب الاحبار کہتے ہیں:
نَجِدُهَا فِي التَّوْرَاةِ كَفْتَةٌ مَحْفُوْفَةٌ بِالنَّخِيْلِ، وَمُوَكَّلٌ بِهَا مَلَائِكَةٌ، كُلَّمَا امْتَلَأَتْ أَخَذُوْا بِأَطْرَافِهَا فَكَفَؤُوْهَا فِي الْجَنَّة
ہم اسے تورات میں (بنام) کفتہ پاتے ہیں۔ کھجور کے باغوں سے گھرا ہوا۔ اس پہ فرشتے مقرر ہیں۔ جب بھی بھر جاتا ہے ، فرشتے اس کے کونوں سے پکڑ کر اسے جنت میں انڈیل دیتے ہیں۔
(الدرۃ الثمینۃ فی اخبار المدینۃ ص ۱۶۴)
کعب الاحبار کا یہ قول جہاں بقیعِ اقدس کی شان وعظمت کا بیان ہے ، وہیں یہ بات بھی سمجھاتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس بقعہِ پاک کا تذکرہ اپنی پچھلی کتابوں میں بھی فرمایا ہے۔
اس کی گواہی ایک دوسری روایت سے بھی ملتی ہے۔
جب مصعب بن زبیر کا مدینہ مشرفہ میں بقیعِ اقدس کے رستے داخلہ ہوا تو ابنِ راس الجالوت کی ہمراہی تھی۔ ابنِ راس الجالوت نے جب جنت البقیع شریف کو دیکھا تو کہا:
یہ وہی ہے۔
مصعب بن زبیر نے ابنِ راس الجالوت کو بلا کر پوچھا کہ کیا کہہ رہے ہو؟
ابنِ راس الجالوت نے کہا:
نَجِدُ صِفَةَ هٰذِهِ الْمَقْبَرَةِ فِي التَّوْرَاةِ بَيْنَ حَرَّتَيْنِ مَحْفُوْفَةً بِالنَّخْلِ اِسْمُهَا كَفْتَةٌ ، يَبْعَثُ اللهُ مِنْهَا سَبْعِيْنَ أَلْفًا عَلٰى صُوْرَةِ الْقَمَرِ.
ہم تورات میں اس قبرستان کا وصف پاتے ہیں۔ دو سنگلاخوں کے بیچ ، کھجوروں سے گھِرا ہوا ، اس کا نام کفتہ ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی اس سے ستر ہزار کو چاند کی صورت میں اٹھائے گا۔
(تاریخ المدینہ لابن شبہ 1/93)
ایک روایت میں ہے کہ ابنِ راس الجالوت نے جب بقیعِ غرقد کو دیکھا تو کہا:
هٰذِهِ الَّتِي نَجِدُهَا فِيْ كِتَابِ اللهِ كَفْتَةٌ
یہ وہی ہے جس کا نام ہم کتابِ الہی میں کفتہ پاتے ہیں۔
جیسے ہی ابنِ راس الجالوت نے اس بقعہِ زمین کو پہچانا تو کہا:
لَا أَطَؤُهَا
میں اس پہ اپنا پاؤں نہیں رکھوں گا۔
راوی کا کہنا ہے:
فانْصَرَفَ عَنْهَا إجلالاً لها
پس از راہِ احترام ابنِ راس الجالوت نے بقیعِ غرقد میں داخلے کے بجائے وہیں سے واپسی اختیار کر لی۔
(الدرۃ الثمینہ فی اخبار المدینہ ۳۵۳)
بقیعِ پاک اور نجدی مظالم:
برادرانِ اسلام!
ابنِ راس الجالوت کا عمل دیکھیے۔۔۔!!!
جنت البقیع شریف کے احترام میں اس بقعہِ زمین پہ اپنا پاؤں نہیں رکھنا چاہتا۔ اور دوسری جانب ان بدبختوں کا عمل بھی ذہن میں لائیے ، جن کی نگاہ میں ان کے علاوہ پوری دنیا میں کوئی مسلمان ہے ہی نہیں۔ اسلام کے ان نام نہاد ٹھیکیداروں نے اسی بقیعِ اقدس پہ ظلم کی وہ داستان رقم کی جو رہتی دنیا تک ان بد بختوں کے کالے کارناموں کی یاد تازہ کرتی رہے گی۔
مرزا حیرت دہلوی نے ۱۸۰۳ء میں نجدیوں کی جانب سے مدینہ مشرفہ پہ کیے جانے والے حملے کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ:
مقبروں سے گزر کر خود نبی اکرم ﷺ کے مزار کو بھی سلامت نہ چھوڑا۔ آپ کے مزار کے جواہر نگار چھت کو برباد کر دیا ، اور اس چادر کو اٹھا دیا جو آپ کی قبرِ مقدس پر پڑی رہتی تھی۔
(حیاتِ طیبہ ص ۳۰۵)
سید سردار محمد حسنی (بی اے۔ آنرز) لکھتے ہیں:
اپریل ۱۸۰۳ء میں سعود بلا مزاحمت مکہ مکرمہ میں داخل ہو گیا۔ ۔۔ مقدس مزارات توڑ پھوڑ دئیے گئے۔ زیارت گاہوں کی بیحرمتی کی گئی۔ حرمِ کعبہ کے غلاف پھاڑ دئیے گئے۔
(سوانح حیات سلطان ابنِ سعود ص ۴۸)
برادرانِ اسلام!
جن کے مذہب میں کعبہ مشرفہ کا غلاف سلامت نہیں۔ جن کے دین میں رسول اللہ ﷺ کی قبرِ اقدس کی بھی حرمت نہیں۔ ان ظالموں کی حالت یہ ہے کہ اپنے علاوہ دنیا کے کسی مسلمان کو مسلمان نہیں سمجھتے۔
۱۸۰۳ء کے حملے کے بعد ۱۹۲۵ء اور ۱۹۲۶ء کے دورانیہ میں نجدی ظالموں نے ایک بار پھر مدینہ مشرفہ میں انسانیت سوز مظالم ڈھائے۔ اس حملے میں بقیعِ اقدس کے مزارات کو تہس نہس کر دیا۔ اور اس سے بڑھ ان کی بدبختی یہاں تک پہنچی کہ:
ان ظالموں نے رسول اللہ ﷺ کے گنبدِ اقدس پہ بھی گولہ باری کی اور اس حملے میں گنبدِ خضرا شریف کو پانچ گولیاں لگیں۔
(سوانح حیات سلطان ابنِ سعود ص ۱۵۷)
برادرانِ اسلام!
نظریاتی اختلاف اپنی جگہ ، لیکن نجدی بدبختوں کے ان سیاہ کارناموں نے امتِ مسلمہ پہ واضح کر دیا کہ مسلمان کہلانے کے باوجود زیرِ فلک بد بخت ترین وہ قوم ہے جنہوں نے اسلام کا دعوی کرنے کے بعد اسلام ہی کے نام پر ان ہستیوں کے مزارات اور مراقد کو مسمار کیا جن کے خون کی آبیاری سے ہی اسلام ایک شگوفے سے ایک تناور درخت بنا۔
خالقِ کائنات ان اشقیاء کی قبروں کو جہنم کی آگ سے بھر دے جن بدبختوں کے ہاتھ اہلِ بیت اور صحابہ کی قبروں کی جانب اٹھے۔ رب العالمین امتِ مسلمہ کو توفیق بخشے کہ امتِ مسلمہ ایک بار پھر ان مراقد ومزارات کو بحال کرنے میں کامیاب ہو سکے ، نجدی اشقیاء نے جنہیں منہدم کرنے کی سعیِ نا مشکور کی۔
مالک کریم بقیعِ غرقد کے مزاراتِ مقدسہ کے صدقے ہماری حالتِ زار پہ رحم فرمائے۔
آمین
بحرمۃ النبی الامین وآلہ الطاہرین
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم
