زوجِ بتول – علیہما السلام

زوجِ بتول - علیہما السلام

الفاظ میں حوصلہ نہیں اور حروف میں طاقت نہیں۔ زبان عاجزی سے ہاتھ باندھے کھڑی ہے اور قلم وقرطاس اپنی بے مائیگی کا عذر پیش کر رہے ہیں۔

وہ الفاظ کہاں سے آئیں جو جگر گوشۂ رسول کی عظمت کے بیان کے لائق ہوں اور وہ حروف کون ترتیب دے جو سیدۃ نساء العالمین کے نعلینِ شریفین کو لگنے والی دھول کی تعریف کر سکیں۔ نہ تو ایسی کوئی زبان ہے جو مدحتِ ملکۂِ جنت کا ایک باب بھی پڑھ سکے اور نہ ہی قلم وقرطاس میں دم ہے کہ اس لا متناہی سلسلے میں مداخلت کی ہمت کر سکیں۔

ہم اس دربار میں فقط اپنے عجز کا اعتراف پیش کر سکتے ہیں ، کیونکہ نہ تو ہمارے ہاتھوں میں طاقت کہ جگر گوشۂ رسول ﷺ کا اسمِ گرامی لکھنے کی جرات کریں اور نہ ہی ہماری زبانیں اس لائق کہ سیدۂ کائنات کا نامِ نامی لینے کے قابل ہو سکیں۔

ہزار بار بشویم دہن بہ مشک وگلاب

ہنوز نامِ تو گفتن کمالِ بے ادبیست

جے لکھ واریں عطر گلابوں دھوئیے انت زباناں

نام ایہناں دے لائق ناہیں کی کلمے دا کانا

لیکن آج کی چند سطریں اس ملکۂ کائنات کے زوجِ مکرم ، شاہِ مرداں ، محبوبِ مصطفی ﷺ ، شیرِ خدا ، مولائے کائنات مولا علی کے آپ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کے بارے میں ہیں۔

فیصلۂ خداوندی سے ہونے والا یہ نکاح ، مولائے کائنات کے ان مفاخر ومناقب سے ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔۔۔۔

سچ یہ ہے کہ:

دورِ رسالت میں کوئی شادی ویسی حسین نہ تھی ، جیسی حسین شادی بیت اللہ کے دولہا اور بیتِ رسول کی دلہن کی تھی۔

❤️ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ اور ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہما فرماتی ہیں:

ما رأينا عرسا أحسن من عرس فاطمة

ہم نے سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا کی شادی سے خوبصورت شادی کوئی نہ دیکھی۔

(سنن ابن ماجہ 1911)

❤️ یونہی جنابِ جابر فرماتے ہیں:

لما حضرنا عرس على وفاطمة رضي الله عنهما فما رأينا عرسا كان أحسن منه

جب ہم حضرت علی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہما کی شادی میں حاضر ہوئے تو ہم نے کوئی شادی اس سے حسین نہ دیکھی۔

(مسند البزار 1408 ، اتحاف السائل ص42)

👈 رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی لختِ جگر ، بیٹیوں میں سے سب سے کم عمر لیکن فضل وکمال میں سب سے بڑھ کر سیدۃ نساء العالمین کی عمرِ شریف اس مرحلے میں داخل ہوئی جب بیٹیوں کے لیے نکاح کے پیغامات آنا شروع ہوتے ہیں تو قانونِ فطرت کے مطابق سیدۂ کائنات کے لیے نکاح کے پیغامات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ گرامی:

إن الأنساب يوم القيامة تنقطع غير نسبي ، وسببي ، وصهري

قیامت کے دن سارے نسب منقطع ہو جائیں گے ، سوائے میرے نسب ، میرے سبب اور میرے سسرالی رشتے کے۔۔۔۔

(مسند احمد 18907 ، مستدرک علی الصحیحین 4747)

اس عظیم بشارت کے پیشِ نظر اہلِ قریش کے معزز ترین لوگوں کی طرف سے دربارِ رسالت میں سیدۃ النساء رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے نکاح کے پیامات آئے۔

لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کبھی جواب میں خاموش رہتے۔

(صحیح ابن حبان 6944)

کبھی فرماتے:

“إنها صغيرة”

وہ کم عمر ہیں۔

(صحیح ابن حبان 6948)

کبھی فرماتے:

أنتظر بها القضاء

میں اپنی لختِ جگر کے بارے میں فیصلۂ خداوندی کا منتظر ہوں۔

(طبقات ابن سعد 8/16 ، شرح الزرقانی 2/359)

یہ بات درست ہے کہ یہ شادی کوئی عام شادی نہ تھی ، یہ نکاح معمولی نکاح نہ تھا لیکن اگررسول اللہ ﷺ اپنی مرضی سے یہ نکاح فرما دیتے تو آپ ﷺ کی ذاتِ والا بھی کوئی معمولی ذات نہ تھی۔ آپ نبیوں کے سردار اور حبیبِ پروردگار ہیں ، اگر آپ اپنی مرضی سے سیدۂ کائنات کے نکاح کا فیصلہ فرما دیتے جب بھی یہ شادی کائنات کی بہترین شادیوں میں شمار ہوتی ، لیکن میرے آقا ﷺ کے پاس پیغامِ نکاح آتا تو آپ ﷺ فرماتے:

أنتظر بها القضاء

میں اپنی لختِ جگر کے بارے میں فیصلۂ خداوندی کا منتظر ہوں۔

یعنی شادی میں اپنی مرضی سے کروا دوں جب بھی مجھے اختیار ہے ، لیکن خالقِ کائنات کے فیصلے کا منتظر ہوں۔ یہ شادی کروائے گا تو رب کروائے گا۔

جب اشرافِ قریش حتی کہ سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ تعالی عنہما تک کی شخصیات کو یہی جواب ملا تو شیخینِ کریمین رضی اللہ تعالی عنہما کو یقین ہو گیا کہ سیدۃ نساء العالمین کا نکاح بغیر حکمِ خداوندی نہ ہو پائے گا۔

(صحیح ابن حبان 6944)

لہذا شیخینِ کریمین رضی اللہ تعالی عنہما نے باہمی مشورہ سے طے کیا کہ :

حضرت علی کے پاس چلتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ وہ سیدہ فاطمہ کے لیے پیغامِ نکاح لے کر جائیں۔

(صحیح ابن حبان 6944)

کیونکہ شیخینِ کریمین بھی جانتے تھے کہ:

علی وہ ہیں جو کبھی خالی نہیں لوٹائے جاتے۔۔۔

اور پھر دربارِ رسالت سے خالی لوٹائے جائیں۔۔۔؟؟؟؟ ایسا ہو نہیں سکتا۔

ایک جانب حضراتِ شیخینِ کریمین رضی اللہ تعالی عنہما نے مولا علی کو یہ مشورہ دینے کا سوچا تو دوسری طرف حضرت علی کے اہلِ خانہ حتی کہ گھر کی خادمہ بھی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو سیدۃ النساء رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کا ذہن بنا رہی تھیں۔اور گھر سے باہر انصارِ کرام بالخصوص حضرت سعد بن معاذ انصاری آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو سیدۃ نساء العالمین سے نکاح کی ترغیب دے رہے تھے۔

(طبقات ابن سعد 8/16 ، الذریۃ الطاہرۃ 92 ، سیرت ابن اسحاق ص246 ، اتحاف السائل ص42 ، السنن الکبری للنسائی 10016 ، تہذیب الکمال 17/75 ، مسند الرویانی 35 ، المعجم الکبیر للطبرانی 1153 ، المعجم الکبیر للطبرانی 1022 ، الشریعۃ للآجری 1614 ، مصنف عبد الرزاق 9782)

لیکن رب کی شان دیکھیے۔۔۔

جو “رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ” کہتے ہیں انہیں “لَنْ تَرَانِي” جواب ملتا ہے اور جنہیں جلوہ دکھانا ہوتا ہے انہیں جبریل علیہ السلام کو بھیج کر بسترِ استراحت سے بلوا لیا جاتا ہے۔۔۔

فتحِ خیبر کی رات جاگ کر گزارنے والوں کو جھنڈا نصیب نہیں ہوتا اور جو اپنے خیمہ میں آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں انہیں بلا کر جھنڈا عطا فرما دیا جاتا ہے۔۔۔

کچھ ایسا ہی معاملہ یہاں بھی نظر آیا۔ اکابر صحابہ دربارِ رسالت میں حاضر ہو کر سیدۃ النساء رضی اللہ تعالی عنہا کا ہاتھ مانگتے ہیں لیکن کسی کی درخواست کو شرفِ قبول سے نوازا نہیں جاتا اور جس شخصیت کو یہ اعزاز حاصل ہونا ہے انہیں اہلِ خانہ ، دوست احباب سب سمجھا رہے ہیں ، ترغیب دے رہے ہیں اور وہ جواب میں کہہ رہے ہیں:

وعندي شيء أتزوج به؟

میرے پاس ہے کیا جو میں شادی کروں؟

(الذریۃ الطاہرۃ 92 ، سیرت ابن اسحاق ص246 ، اتحاف السائل ص42)

کبھی فرماتے:

وكيف وقد خطبها أشراف قريش فلم يزوجها؟

یہ کیسے ممکن ہے کہ سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح مجھ سے ہو سکے ، حالانکہ قریش کے ذی شرف لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس سیدۃ نساء العالمین کے لیے پیغامِ نکاح بھیجا لیکن آپ ﷺ نے سیدہ نساء اہل الجنۃ رضی اللہ تعالی عنہا کا ان سے نکاح نہیں فرمایا؟

(ذخائر العقبی ص30)

لیکن جب گھر ، باہر ، ہر طرف سے یہی مشورہ ملا تو مولائے کائنات فرماتے ہیں:

میں اپنی چادر کھینچتے ہوئے اٹھا اور نبی ﷺ کے سامنے جا کر بیٹھ گیا اور سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا کا ہاتھ مانگ لیا۔

(صحیح ابن حبان 6944)

ہاتھ کیا مانگنا تھا ، فرماتے ہیں:

جب میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہوا تو میری زبان بند ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ما جاء بك؟

کیسے آئے ہو؟

ألك حاجة؟

کوئی کام ہے؟

لیکن جواب میں میرے پاس صرف خاموشی تھی اور میں بول نہیں پا رہا تھا۔

آخر کار ظاہر وباطن پہ کامل نگاہ رکھنے والے حبیبِ خدا صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا:

لعلك جئت تخطب فاطمة

شاید تم فاطمہ کے لیے پیامِ نکاح لے کر آئے ہو؟

مولا علی مشکل کشا جب اپنا مطلب اپنے آقا ﷺ کی زبانی سنتے ہیں تو بولنے کا حوصلہ ہو جاتا ہے ، عرض کرتے ہیں:

جی ہاں یا رسول اللہ!

(الذریۃ الطاہرۃ 92 ، سیرت ابن اسحاق ص246 ، اتحاف السائل ص42)

جِئْتُكَ خَاطِبًا إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ ، فَاطِمَةَ ابْنَةَ مُحَمَّدٍ

میں آپ کے پاس اللہ اور اس کے رسول کے دربار میں فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ تعالی علیہ وعلی ابنتہ وسلم) کے نکاح کا پیغام لے کر آیا ہوں۔

(المعجم الکبیر للطبرانی 1022 ، الشریعۃ للآجری 1614 ، مصنف عبد الرزاق 9782)

سیدِ عالم ﷺ فیصلۂ خداوندی کا انتظار فرما رہے تھے اور گویا کہ فیصلۂ خداوندی کو مولا علی کا انتظار ہو۔ ایک طرف مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ پیغامِ نکاح لے کر پہنچتے ہیں اور دوسری طرف فیصلۂ خداوندی بھی ہو جاتا ہے کہ یہ اعزاز مولا علی مشکل کشا کا حصہ ہے۔

رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ میرے پاس فرشتے نے حاضر ہو کر عرض کی:

یا رسول اللہ! اللہ جل وعلا نے آپ کو سلام پیش فرمایا ہے اور فرمایا ہے:

انى قد زوجت فاطمة ابنتك من على بن أبى طالب في الملا الاعلى فزوجها منه في الارض

میں نے آپ کی لختِ جگر فاطمہ کا نکاح علی بن ابی طالب سے ملاء اعلی میں کر دیا ہے تو آپ زمین پر ان کا نکاح حضرت علی سے فرما دیں۔

(ذخائر العقبی ص 31 ، 32)

اور حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:

إن الله أمرني أن أزوج فاطمة من علي رضي الله عنهما

مجھے اللہ جل وعلا نے حکم فرمایا کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کر دوں۔

(معجم کبیر للطبرانی 10305)

انتظار تھا فیصلۂ خداوندی کا جو ہو چکا تھا ، حضرت جبریل حاضرِ دربار ہو کر خالق ومالک جل وعلا کا فیصلہ بتا چکے تھے ، پس حضرت علی کی بات سنتے ہی سیدِ عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:

مَرْحَبًا مَرْحَبًا

بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:

مَرْحَبًا واهلا

(المعجم الکبیر للطبرانی 1022 ، الشریعۃ للآجری 1614 ، مصنف عبد الرزاق 9782)

حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس حاضر تھا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پہ وحی آنے لگ گئی۔ جب آپ ﷺ سے یہ حالت چھٹی تو فرمایا:

يا أنس ، تدري ما جاءني به جبريل عليه السلام من صاحب العرش عز وجل؟

انس جانتے ہو کہ جبریل صاحبِ عرش جل وعلا کے پاس سے میرے پاس کیا لے کر آئے؟

میں نے عرض کی:

بأبي وأمي ما جاءك به جبريل عليه السلام من صاحب العرش عز وجل؟

میرا باپ اور ماں آپ پہ فدا۔۔۔ جبریل صاحبِ عرش سے آپ کے پاس کیا لائے؟

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إن الله عز وجل أمرني أن أزوج فاطمة من علي

اللہ جل وعلا نے مجھے حکم دیا کہ میں فاطمہ کا علی سے نکاح کر دوں۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:

ابو بکر صدیق ، عمرِ فاروق ، عثمانِ ذو النورین ، علی المرتضی ، طلحہ ، زبیر ، سعد بن ابی وقاص ، عبد الرحمن اور اتنے ہی انصار کو بلا کر لاؤ۔

جب سب لوگ آ کر بیٹھ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے خطبۂ نکاح پڑھا:

الْحَمْدُ لِلهِ الْمَحْمُوْدِ بِنِعْمَتِهِ الْمَعْبُوْدِ بِقُدْرَتِهِ الْمُطَاعِ بِسُلْطَانِهِ الْمَرْغُوبِ إِلَيْهِ فِيمَا عِنْدَهُ الْمَرْهُوْبِ مِنْ عَذَابِهِ وَسَطْوَتِهِ النَّافِذِ أَمْرُهُ فِى سَمَائِهِ وَأَرْضِهِ الَّذِي خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِهِ وَمَيَّـزَهُمْ بِأَحْكَامِهِ وَأَعَزَّهُمْ بِدِيْنِهِ وَأَكْرَمَهُمْ بِنَبِـيِّهِ مُحَمَّدٍ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . إِنَّ اللهَ تَبَارَكَ اسْمُهُ وَتَعَالَتْ عَظَمَـتُهُ جَعَلَ الْمُصَاهَرَةَ سَبَبًا لاَحِقًا وَأَمْرًا مُفْتَرَضًا أَوْشَجَ بِهِ اْلأَرْحَامَ وَأَلْزَمَ اْلأَنَامَ فَقَالَ عَـزَّ مِنْ قَائِلٍ :[وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشًرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيْرًا] فَأَمْرُاللهِ عَزَّ وَجَلَّ يَجْرِيْ إِلَى قَضَائِهِ وَقَضَاؤُهُ يَجْرِيْ إِلَى قَدَرِهِ وَلِكُلِّ قَضَاءٍ قَدَرٌ وَلِكُلِّ قَدَرٍ أَجَلٌ وَلِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ يَمْحُوْ اللهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ .

پھر فرمایا:

اللہ جل وعلا نے مجھے حکم فرمایا کہ میں فاطمہ کا نکاح علی بن ابی طالب سے کر دوں۔ تو آپ لوگ گواہ بن جاؤ کہ میں نے چار سو مثقال چاندی پر یہ نکاح کر دیا اگر علی اس سے راضی ہوں۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ایک طشت میں کھجوریں منگوا کر حاضرین کو کھانے کا حکم فرمایا۔ حاضرین نے اس سے لیا۔

جب حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دیکھ کر تبسم فرمایا اور فرمایا:

إن الله عز وجل أمرني أن أزوجك فاطمة على أربعمائة مثقال فضة ، أرضيت بذلك؟

اللہ جل وعلا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ کا سیدہ فاطمہ سے چار سو مثقال چاندی پہ نکاح کر دوں۔ کیا آپ اس پہ راضی ہو؟

حضرت علی نے عرض کی:

یا رسول اللہ میں اس سے راضی ہوں۔

پھر حضرت علی المرتضی سجدۂ شکر میں گر گئے کہ اللہ جل وعلا نے انہیں خیر البریہ سیدِ عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا محبوب بنایا ہے۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بدیں الفاظ دعا فرمائی:

جمع الله شملكما وأعز جدكما، وبارك عليكما، وأخرج منكما كثيرا طيبا ، وجعل نسلكما مفاتيح الرحمة ومعدن الحكمة

(الشریعۃ للآجری 1615 ، المواہب اللدنیہ 2/362 ، 263 ، 264 ، الصواعق المحرقہ 2/418 ، 419 ، مرقاۃ المفاتیح 9/3945 ، تلخیص المتشابہ فی الرسم 1/364 ، تاریخِ دمشق 52/444 ، اتحاف السائل ص48)

یہ نکاح مولائے کائنات کے لیے وہ اعزاز تھا کہ حضرت عمر بھی اس پہ رشک کیا کرتے تھے۔

آپ فرمایا کرتے:

مولا علی کو تین ایسی خصلتیں عطا کی گئیں کہ اگر مجھے ان میں سے ایک بھی عطا ہوتی تو میرے لیے سرخ اونٹوں سے زیادہ قیمتی ہوتی۔

پوچھا گیا: وہ کون کون سی؟

حضرت عمر نے فرمایا:

تَزَوَّجُهُ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسُكْنَاهُ الْمَسْجِدَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحِلُّ لَهُ فِيهِ مَا يَحِلُّ لَهُ، وَالْرَايَةُ يَوْمَ خَيْبَرَ

حضرت علی کا رسول اللہ ﷺ کی لختِ جگر سیدہ فاطمہ سے نکاح۔

مولا علی کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسجد میں رہنا ، جو رسول اللہ ﷺ کے لیے مسجد میں حلال وہ مولا علی کے لیے حلال۔

اور خیبر کے روز جھنڈا۔

(مستدرک علی الصحیحین 4632 ، مناقب الاسد الغالب ص15)

ہاں ہاں!

سیدہ نساء العالمین سے نکاح کوئی معمولی بات نہ تھی۔

یہ وہ عظمت تھی کہ سید الرسل جانِ کائنات ﷺ نے بھی مولائے کائنات سے فرمایا:

أوتيت ثلاثا لم يؤتهن أحد – ولا أنا- أوتيت صهرا مثلي ولم أوت أنا مثلي، وأوتيت صدّيقة مثل ابنتي ولم أوت مثلها زوجة، وأوتيت الحسن والحسين من صلبك ولم أوت من صلبي مثلهما، ولكنكم مني وأنا منكم

اے علی!

تجھے تین چیزیں وہ عطا ہوئی جو کسی کو نہ ملیں ، یہاں تک کہ مجھے بھی نہ ملیں۔۔۔

تمہیں مجھ جیسے سسر ملے اور مجھے مجھ جیسے سسر نہ ملے۔۔۔

تجھے میری بیٹی جیسی صدیقہ ملی اور مجھے ایسی کوئی بیوی نہ ملی۔۔۔

تجھے اپنی پشت سے حسن وحسین ملے اور مجھے میری پشت سے ان دونوں شہزادوں جیسا کوئی نہ ملا۔۔۔

لیکن تم سب مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔

(شرف المصطفي 5/306 ، الریاض النضرۃ 3/172 ، 173 ، مسند امام علی رضا 1/119 حدیث 81 ، فرائد السمطین 1/142 حدیث 106 ، سمط النجوم العوالی 3/49)

اصلِ نسلِ صفا وجہِ وصلِ خدا

بابِ فصلِ ولایت پہ لاکھوں سلام

از قلم:

محمد چمن زمان نجم القادری

رئیس جامعۃ العین ۔ سکھر

11 جمادی الثانیہ 1443ھ

15 جنوری 2022ء